مسافت قصر کی حد
راوی:
وَعَنْ مَالِکٍ بَلَغَہ، اَنَّ بْنَ عَبَّاسٍ کَانَ یَقْصُرُ الصَّلَاۃَ فِی مِثْلِ مَایَکُوْنَ بَیْنَ مَکَّۃَ وَالطَّائِفِ وَفِی مِثْلِ مَابَیْنَ مَکَّۃَ وَعُسْفَانَ وَفِیْ مِثْلِ مَابَیْنَ مَکَّۃَ وَجَدَّۃَ قَالَ مَالِکٌ وَ ذٰلِکَ اَرْبَعَۃُ بُرُدٍ۔ (رواہ فی الموطا)
" اور حضرت امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ راوی ہیں کہ ان کو حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے بارے میں خبر پہنچی ہے کہ وہ (یعنی حضرت عبداللہ ابن عباس ) اس مسافت کے دوران جو مکہ اور طائف مکہ اور عسفان مکہ اور جدہ کے درمیان ہے قصر نماز پڑھتے تھے۔ امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ مسافت چار برید ہے۔" (موطا)
تشریح
چار برید سولہ فرسخ کے برابر ہیں ، ایک فرسخ تین میل کو کہتے ہیں ایک میل (محد ثین کے ہاں) چار ہزار ہاتھ کی مسافت کو کہتے ہیں ۔ اس طرح چار برید اڑتالیس میل کی مسافت ہوئی۔ اگر ایک منزل کو بارہ میل کی مسافت مانی جائے تو چار برید کی چار منزلیں ہوئیں۔
بظاہر اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حدیث میں جن تین مسافتوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ یکساں ہوں یعنی جتنی مسافت مکہ اور طائف کے درمیان ہو اتنی ہی مسافت مکہ اور عسفان کے درمیان ہو اسی طرح جتنی مسافتیں ان دونوں کی الگ الگ ہو اتنی ہی مسافت مکہ اور جدہ کے درمیان ہو۔ حالانکہ حقیقت میں یہ تینوں مسافت برابر نہیں ہیں۔ لہٰذا اگر یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہے کہ حضرت امام مالک کے قول ذلک اربعۃ برید (یہ مسافت چار برید ہے) کا تعلق آخری مسافت یعنی مکہ اور جدہ کے درمیان کی مسافت ہے کہ مکہ اور جدہ کا درمیانی فاصلہ چار برید ہے۔
حضرت عبداللہ ابن عباس کے مذکورہ بالا فعل کے بارے علماء لکھتے ہیں کہ قرآن و حدیث میں مسافت قصر کی کوئی حد بیان نہیں کی گئی ہے بلکہ مطلقاً سفر ذکر کیا گیا ہے قصر نماز کے باب کی احادیث پر نظر ڈالنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جہاں جہاں بھی قصر نماز کا ذکر کیا گیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قصر نماز پڑھنے کو بیان کیا گیا ہے ان تمام مواقع کی مسافت میں فرق ہے بعض زیادہ کم ہیں اور بعض مسافتیں زیادہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ، تابعین اور آئمہ وعلماء امت کی آسانی کے لئے اپنے اپنے اجتہاد کے ذریعے اور غور و فکر کے ساتھ مسافت قصر کی حد مقرر کی ہے کہ اس حد سے کم مسافت میں نماز قصر نہیں ہوگی بلکہ پوری ہی پڑھی جائے گی اور اس مسافت یا اس سے زائد مسافت کی صورت میں قصر واجب ہوگا۔
چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک روایت کے مطابق ایک روز کی مسافت اور دوسری روایت کے مطابق دو روز کی مسافت کو مقرر کیا ہے لیکن ان کے مسلک کی کتاب " حاوی" میں سولہ فرسخ کا تعین کیا گیا ہے اور یہی مسلک حضرت امام مالک و حضرت امام احمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کا ہے۔
حضرت امام ابوحنیفہ نے مسافت قصر کے سلسلے میں تین منزلیں کی حد مقرر کی ہیں اور ایک منزل اتنی مسافت پر ہو کہ چھوٹے دنوں میں قافلہ صبح کو چل کر دو پہر کے بعد منزل پر پہنچ جائے۔
حضرت امام ابویوسف دو روز اور تیسرے روز کے اکثر حصہ کی مسافت کو مسافت قصر قرار دیا ہے۔
اصحاب ظواہر (وہ جماعت جو صرف حدیث کے ظاہری الفاظ پر عمل پیرا ہوتی ہے ) نے مطلقاً سفر کا اعتبار کیا ہے یعنی ان کے نزدیک مسافت قصر کی کوئی حد مقرر نہیں ہے خواہ سفر لمبا ہو یا چھوٹا ہو ہر صورت میں نماز قصر ادا کی جائے گی۔
اس سلسلے میں اگر چاروں ائمہ کے مسلک کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ حقیقت اور نتیجے کے اعتبار سے سب کا یکساں ہی مسلک ہے کیونکہ حنفیہ کے نزدیک مشہور مسلک کے مطابق مسافت قصر (٤٨) میل مقرر ہے ، حاوی قول کے مطابق شوافع کے ہاں سولہ فرسخ مقرر ہے اور سولہ فرسخ حساب کے اعتبار سے (٤٧) میل کے برابر ہے اسی طرح حضرت امام مالک و حضرت امام احمد کا یہی مسلک ہے لہٰذا چاروں مسلک میں مسافت قصر (٤٨) میل ہوئی۔ وا اللہ اعلم