قصر اللہ کا حکم ہے
راوی:
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ فَرَضَ اللّٰہُ الصَّلٰوۃَ عَلٰی لِسَانِ نَبِےِّکُمْ صلی اللہ علیہ وسلم فِی الْحَضَرِ اَرْبَعًا وَفِی السَّفَرِ رَکْعَتَےْنِ وَفِی الْخَوْفِ رَکْعَۃً۔(صحیح مسلم)
" اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ جل شانہ نے تمہارے نبی سر تاج دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی حضر میں چار رکعتیں فرض کی ہیں۔ اور سفر میں دو رکعتیں اور خوف کی حالت میں ایک رکعت فرض کی ہے۔" (صحیح مسلم)
تشریح
وفی السفر رکعتین حنفیہ کی مسلک کی صریح دلیل ہے کہ سفر کی حالت میں دو ہی رکعتیں پڑھی جائیں پوری نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔
وفی الخوف رکعۃ (خوف کی حالت میں ایک رکعت فرض ہے) اس کے ظاہری مفہوم پر علماء سلف میں سے ایک جماعت نے عمل کیا ہے جس میں حسن بصری اور اسحق بھی شامل ہیں لیکن جمہور علماء فرماتے ہیں کہ نماز کی رکعتوں کے اعتبار سے امن اور خوف کی نماز میں کوئی فرق نہیں ہے جتنی رکعتیں حالت امن میں پڑھی جاتی ہیں اتنی ہی رکعتیں خوف کی حالت میں بھی پڑھنی چاہئیں ان کی طرف سے اس حدیث کی تاویل یہ کی جاتی ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ دو گانہ حقیقی یا حکمی امام کے ساتھ پڑھنے کے سلسلے میں یہ طریقہ اختیار کیا جائے کہ ایک رکعت تو امام کے ساتھ پڑھی جائے اور ایک رکعت تنہا پڑھی جائے جیسا کہ خوف کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے نماز پڑھنے کا طریقہ احادیث صحیحہ میں ثابت ہے ۔ اور شہر میں مطلقاً خوف کی حالت میں چار رکعتیں اور تین رکعتیں اس طرح پڑھی جائیں کہ امام کے ساتھ دو رکعتیں پڑھی جائیں اور بقیہ تنہا پڑھی جائیں ۔ اس کی تفصیل صلوٰۃ الخوف کے باب میں آئے گی انشاء اللہ تعالیٰ۔