عذاب قبر کے ثبوت کا بیان
راوی:
عَنْ جَابِرِ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اِلٰی سَعْدِ بْنِ مُعَاذِ حِیْنَ تُوُ فِّیَ فَلَمَّا صَلَّی صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَوُضِعَ فِیْ قَبْرِہٖ وَسُوِّیَ عَلَیْہِ سَبَّحَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَسَبَّحْنَا طَوِیْلًا ثُمَّ کَبَّرَ فَکَبَّرْنَا فَقِیْلَ یَا رَسُوْلَ اﷲِ لِمَ سَبَّحْتَ ثُمَّ کَبَّرْتَ فَقَالَ لَقَدْ تَضَایَقَ عَلٰی ھٰذَا الْعَبْدِا الصَّالِحِ قَبْرُہ، حَتّٰی فَرَّجَہُ اﷲُ عَنْہُ۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل)
" حضرت جابر رضی الله تعالیٰ عنه راوی ہیں کہ حضرت سعد بن معاذ رضی الله تعالیٰ عنه کی وفات کے بعد ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ان کے جنازہ پر گئے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنازہ کی نماز پڑھ چکے اور حضرت سعد رضی الله تعالیٰ عنه کو قبر میں اتار کر قبر کی مٹی برابر کر دی گئی تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم تسبیح (یعنی سبحان اللہ ) پڑھتے رہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر (یعنی اللہ اکبر) کہی ہم نے بھی تکبیر کہی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ یا رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم) آپ نے تسبیح کیوں پڑھی اور پھر تکبیر کیوں کہی؟ فرمایا اس بندہ صالح پر اس کی قبر تنگ ہوگئی تھی پھر اللہ نے ہماری تسبیح و تکبیر کی وجہ سے اسے کشادہ کر دیا۔ " (مسند احمد بن حنبل)
فائدہ :
تسبیح و تکبیر سے اللہ کا غضب رحمت میں اور اس کا غصہ شفقت میں بدل جاتا ہے اور وہاں مقدس کلموں کی بدولت اپنی رحمت و نعمت کے دروازے کھول دیتا ہے۔
چنانچہ اسی لئے خوف و دہشت کے موقع پر یا کسی خوفناک چیز کو دیکھ کر تکبیر مستحب ہے۔ تسبیح و تکبیر کا جنتا ورد رکھا جائے گا اتنا ہی اللہ کی رحمت سے قریب ہوتا جائے گا اور دنیاوی آفات و بلا نیز غضب الٰہی سے دور ہوتا ہوجائے گا۔