جمع بین الصلوٰتین
راوی:
وَعَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم فِیْ غَزْوَۃِ تَبُوْکَ اِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ اَنْ یَرْتَحِلَ جَمَعَ بَیْنَ الظُّھْرِ وَالْعَصْرِ وَاِنِ ارْتَحَلَ قَبْلَ اَنْ تَزِیْغَ الشَّمْسُ اَخَّرَ الظُّھْرَ حَتّٰی یَنْزِلَ الْعَصْرَ وَفِی الْمَغْرِبِ مِثْلَ ذَالِکَ اِذَا غَابَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ اَنْ یَرْتَحِلَ جَمَعَ بَیْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ فَاِنْ ارْتَحَلَ قَبْلَ اَنْ تَغِیْبَ الشَّمْسُ اٰخِرَا الْمَغْرِبَ حَتّٰی یَنْزِلَ لِلْعِشَاءِ ثُمَّ یَجْمَعُ بَیْنَھُمَا۔ (رواہ ابودا،ود و الترمذی)
" اور حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک میں (اسی طرح عمل فرماتے تھے) کہ جب کوچ کرنے سے پہلے دوپہر ڈھل جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر و عصر کی نماز ایک ساتھ پڑھ لیتے تھے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر ڈھلنے سے پہلے ہی کوچ فرماتے تو ظہر کی نماز میں تاخیر فرماتے اور عصر کے لئے اترتے (یعنی ظہر و عصر دونوں نمازیں ایک ساتھ پڑھتے) مغرب کی نمازیں ایک ساتھ پڑھتے اور اگر آفتاب غروب ہونے سے پہلے ہی کوچ فرماتے تو نماز مغرب میں تاخیر فرماتے یہاں تک کہ عشاء کی نماز کے لئے اترتے اور (اس وقت) دونوں نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے۔" (ابوداؤد، جامع ترمذی )
تشریح
اس حدیث سے شوافع نے جمع بین الصلوٰ تین کے سلسلے میں جمع تقدیم و جمع تاخیر ثابت کی ہے اس کا بیان پہلے گزر چکا ہے کہ ان کے نزدیک سفر میں دو نمازوں کو ایک ایک ساتھ پڑھ لینا جائز ہے اور ان دونوں نمازوں کو ان میں سے کسی ایک وقت بھی پڑھا جا سکتا ہے۔
حنفیہ کے ہاں چونکہ جمع بین الصلوٰتین جائز نہیں ہے اس لئے وہ اس سلسلے میں ابوداؤد کا قول نقل کرتے ہیں کہ " وقت سے پہلے ہی نماز پڑھ لینے کے سلسلے میں کوئی بھی حدیث قوی ثابت نہیں ہے۔"
گویا ابوداؤد کا یہ قول اس حدیث کے ضعیف ہونے پر دلیل ہے پھر یہ کہ حنفیہ کی دلیل صحیح البخاری و صحیح مسلم کی وہ روایت ہے جو حضرات عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ " میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی بھی نماز غیر مقرر وقت میں پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا ہے ۔" لہٰذا ان دونوں حدیثوں کے تعارض کی شکل میں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ حدیث ہی راحج ہوگی۔ کیونکہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں اس سے کسی کو بھی انکار نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنے تفقہ اور علم کی زیادتی اور روایت حدیث کے سلسلے میں احتیاط پسندی میں سب سے ممتاز ہیں اور ظاہر ہے کہ ان کی روایت کردہ حدیث سب سے زیادہ صحیح اور معتمد ہوگی۔