مدت اقامت
راوی:
وَعَنِ بْنِ عّبَّاسٍ قَالَ سَافَرَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم سَفَراً فَأَقَامَ تِسْعَۃَ عَشَرَ یَوْمًا یُصَلِّی رَکْعَتَیْنِ رَکْعَتَیْنِ قَالَ ابْنُ عُبَّاسٍ فَنَحْنُ نُصَلِّی فِیْمَا بَیْنَنَا وَبَیْنَ مَکَّۃَ تِسْعَۃَ عَشَرَ رَکْعَتَیْنِ رَکْعَتَیْنِ فَاِذَا اَقَمْنَا اَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ صَلَّیْنَا اَرْبَعَا۔ (رواہ البخاری)
" اور حضرت عبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کہیں) سفر پر تشریف لے گئے اور وہاں انیس دن قیام فرمایا (دوران قیام) آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو دو رکعتیں نماز پڑھتے رہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ ہم لوگ بھی جب مکہ اور اپنے (یعنی مدینہ) کے درمیان کہیں انیس دن قیام کرتے ہیں تو دو دو رکعتیں نماز پڑھتے ہیں اور جب اس سے زیادہ ٹھہرتے ہیں تو چار رکعت نماز پڑھتے ہیں۔" (صحیح البخاری )
تشریح
فاقام تسعۃ عشر یوما کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انیس دن بغیر اقامت کے اس طرح ٹھہرے کہ امروز فردا میں وہاں سے روانہ ہو جانے کا ارادہ فرماتے رہے مگر بلاقصد و ارادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام وہاں انیس دن ہو گیا۔ مگر اس سے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے یہ نیتجہ اخذ کیا کہ اگر کوئی آدمی حالت سفر میں کہیں انیس دن ٹھہر جائے تو وہ قصر نماز پڑھ سکتا ہے۔ ہاں انیس دن بعد اس کے لئے قصر جائز نہیں ہوگا اس مسئلے میں حضرت عبداللہ ابن عباس منفرد ہیں اور کسی کا بھی یہ مسلک نہیں ہے۔
مدت اقامت کے سلسلے میں ابتداء باب میں تفصیل کے ساتھ مسئلہ بیان کیا جا چکا ہے۔ اس موقع پر پھر جان لیجئے کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی حالت سفر میں کسی جگہ پندرہ دن سے زیادہ ٹھہرنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔ تو اس کے لئے قصر جائز نہیں ہے بلکہ وہ پوری نماز پڑھے اور اگر کوئی آدمی پندرہ دن یا پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو قصر نماز پڑھے بلکہ اگر وہ اقامت کی نیت نہ کرے اور آج کل میں وہاں سے روانہ ہونے کا ارادہ کرتا رہے اور اس طرح بلا قصد ارادہ اس کے قیام کا سلسلہ برسوں تک بھی دراز ہو جائے تب بھی وہ قصر نماز پڑھتا رہے امام طحاوی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہی مسئلہ جلیل القدر صحابہ مثلاً حضرت عبداللہ ابن عمر وغیرہ سے نقل کیا ہے۔
حضرت امام محمد نے کتاب الآثار میں نقل کیا ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر آزربائیجان میں چھ مہینے اس طرح ٹھہرے رہے کہ آج کل میں وہاں سے چلنے کا ارادہ کرتے رہے مگر بلا قصد وارادہ ان کا قیام اس قدر طویل ہو گیا چنانچہ وہ اس مدت میں برابر قصر نماز پڑھتے رہے اس موقع پر دیگر صحابہ بھی ان کے ہمراہ تھے اسی طرح حضرت انس بھی مروان کے بیٹے عبدالملک کے ہمراہ شام میں دو مہینے تک بلا قصد ارادہ ٹھہرے رہے اور وہاں دو دو رکعت نماز پڑھتے رہے۔
اس مسئلے میں حضرت امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی کسی جگہ علاوہ دو دن آنے اور جانے کے چار روز سے زیادہ قیام کا ارادہ رکھتا ہے تو وہ مقیم ہو جاتا ہے اس کے لئے قصر جائز نہیں ہے وہ پوری نماز پڑھے اسی طرح اقامت کی نیت کے بغیر امروز و فردا میں چلنے کا ارادہ کرتے کرتے بلا قصد وارادہ اٹھارہ دن سے زیادہ ٹھہر جائے تو تب بھی اس کے لئے قصر جائز نہیں ہوگا وہ پوری نماز پڑھے امام شافعی کی فقہ میں یہی معتمد اور صحیح قول ہے۔