قیامت کے روز سب سے پہلے نماز کی پرستش ہوگی
راوی:
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ اِنَّ اَوَّلَ مَا یُحَاسَبُ بِہِ الْعَبْدُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ عَمَلِہٖ صَلَا تُہ، فَاِنْ صَلُحَتْ فَقَدْ اَفْلَحَ وَاَنْجَحَ وَاِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَفَاِنِ انْتَقَصَ مِنْ فَرِیْضَتِہٖ شَیْی ءٌ قَالَ الرَّبُّ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی اُنْظُرُ وا ھَلْ لِعَبْدِی مِنْ تَطَوُّعٍ فَیُکَمَّلُ بِھَا مَا انْتَقَصَ منِ َالْفَرَاضَۃِ ثُمَّ یَکُوْنُ سَائِرَُ عَمَلِہٖ عَلٰی ذٰلِکَ وَفِیْ رَوَایَۃٍ ثُمَّ الزَّکَاۃُ مِثْلُ ذٰلِکَ ثُمَّ تُوْ خَذُ الْاَعْمَالُ عَلٰی حَسَبِ ذٰلِکَ رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَو اَحْمَدُ عَنْ رَجُلٍ۔
" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سر تاج دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کے روز بندہ کے اعمال میں سب سے پہلے جس عمل کے بارے میں محاسبہ کیا جائے گا وہ اس کی نماز ہوگی، لہٰذا اگر اس کی نماز درست ہوگی (یعنی اس نے نماز کو صحیح ادا کیا ہوگا۔ یا یہ کہ اس کی نماز مقبول ہوئی ہوگی ۔ تو وہ فلاح اور کامیابی پائے گا اور اگر نماز فاسد ہوگی (یعنی نماز ادا نہ کی گئی یا ادا تو کی گئی مگر غیر صحیح اور غیر مقبول) تو وہ ثواب سے نا امید ہوگا اور (عذاب میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ) خسارے میں رہے گا۔ ہاں اگر (کسی کی) فرض نماز میں کچھ کمی رہ گئی (یعنی نماز کے فرض، واجب اور سنت مؤ کدہ اور ارکان میں سے کوئی رکن رہ گیا اور نماز مکمل ہوگئی) تو اللہ بزرگ و برتر (فرشتوں سے) فرمائے گا کہ دیکھو میرے بندے کے پاس (یعنی اس کے نامہء اعمال میں) کچھ نفل یا سنت نماز بھی ہے۔ لہذا اگر اس کے نامہء اعمال میں سنت ونفل نماز ہوگی تو اس کے ذریعے سے اس کی فرض نماز کی کمی پوری کی جائے گی، پھر اسی طرح بندے کے دوسرے اعمال کا حساب ہوگا۔ ایک دوسری روایت میں آخری الفاظ یوں ہیں پھر ایسے ہی زکوۃ کا حساب ہوگا اور پھر بقیہ اعمال کا محاسبہ کیا جائے گا۔ یہ روایت ابوداؤد نے نقل کی ہے اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ روایت ایک (دوسرے) آدمی سے نقل کی ہے۔"
تشریح
ایک دوسری روایت میں بتایا گیا ہے کہ قیامت کے روز بندے سے سب سے پہلے جس چیز کے بارے میں سوال کیا جائے گا وہ خون ہوگا اور یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ سب سے پہلے " نماز" کا محاسبہ ہوگا۔ لہٰذا ان دونوں روایتوں میں تطبیق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سے تو سب سے پہلے نماز کا مواخذہ ہوگا اور بندوں کے حقوق میں سب سے پہلے" خون" کا حساب لیا جائے گا۔
حدیث کے آخری الفاظ " پھر اسی طرح بندے کے دوسرے اعمال کا حساب ہوگا " کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح فرض نماز کی کوئی کمی سنت و نفل نماز سے پوری کی جائے گی اسی طرح دوسرے فرض اعمال میں بھی کوئی کوتاہی ہوگی تو اسے نفل اعمال کے ذریعے پورا کیا جائے گا۔ مثلاً اگر فرض روزوں میں کوئی نقصان واقع ہوگا تو وہ نقصان نفل روزے سے پورا کیا جائے گا اگر زکوۃ میں کچھ نقصان ہوگا تو صدقے نفل سے اسے پورا کیا جائے گا۔ اگر فرض حج میں کوئی کمی رہ گئی تو نفل حج یا عمرہ سے پوری کی جائے گی اور اگر کسی پر کسی کا کوئی حق (مطالبہ) ہوگا تو اس کے اعمال صالحہ سے اس مطالبہ کی بقدر حصہ لے کر صاحب مطالبہ کو دے دیا جائے گا اسی طرح تمام اعمال کے بارے میں پورا پورا محاسبہ کیا جائے گا۔