مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ تراویح کا بیان ۔ حدیث 1302

نماز تسبیح کی فضیلت

راوی:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لِلْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ یَا عَبَّاسُ یَا عَمَّاہُ اَلَا اُعْطِیْکَ اَلَا اَمْنَحُکَ اَلَا اُخْبِرُکَ اَلَا اَفْعَلُ بِکَ عَشْرَ خِصَالٍ اِذَا اَنْتَ فَعَلْتَ ذٰلِکَ غَفَرَ اﷲُ لَکَ ذَنْبَکَ اَوَّلَہ، وَاٰخِرَہ، قَدِیْمَہ، وَحَدِیْثَہ، خَطَاَہ، وَعَمْدَہ، صَغِیْرَہ، وَ کَبِیْرَہ، سِرَّہ، وَعَلَانِیَتَہ، اَنْ تُصَلِّیْ اَرْبَعَ رَکْعَاتٍ تَقْرَاُفِیْ کُلِّ رَکْعَۃٍ فَاتِحَۃَ الْکِتَابِ وَسُوْرَۃً فَاِذَا فَرَغْتَ مِنَ الْقِرَاءَ ۃِ فِیْ اَوَّلِ رَکْعَۃٍ وَاَنْتَ قَائِمٌ قُلْتُ سُبْحَانَ اﷲِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَاﷲُ اَکْبَرُ خَمْسَ عَشْرَۃً مَرَّۃً ثُمَّ تَرْکَعُ فَتَقُوْلُھَا وَاَنْتَ رَاکِعٌ عَشْرًا ثُمَّ تَرْفَعُ رَاْسَکَ مِنَ الرَّکُوْعِ فَتَقُوْلُھَا عَشْرًا ثُمَّ تَھْوِیْ سَاجِدً فَتَقُوْلُھَا وَاَنْتَ سَاجِدٌ عَشْرً ثُمَّ تَرْفَعُ رَاْسَکَ مِنَ السُّجُوْدِ فَتَقُوْلُھَا عَشْرًا ثُمَّ تَسْجُدُ فَتَقُوْلُھَا عَشْرًا ثُمَّ تَرْفَعُ رَأْسَکَ فَتَقُوْلُھَا عَشْرًا فَذٰلِکَ خَمْسٌ وَّسَبْعُوْنَ فِیْ کُلِّ رَکْعَۃٍ تَفْعَلُ ذٰلِکَ فِیْ اَرْبَعَ رَکْعَاتٍ اِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تُصَلِّیَھَا فِیْ کُلِّ یَوْمٍ مَرَّۃً فَافْعَلْ فَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَفِیْ کُلِّ جُمُعَۃٍ مَرَّۃً فَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَفِیْ کُلِّ شَھْرٍ مَرَّۃً فَاِنْ لَمْ تَفْعَلُ فَفِیْ کُلِّ سَنَۃٍ مَرَّۃً فَاِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَفِیْ عُمْرِکَ مَرَّۃً رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَابْنُ مَاجَۃَ وَالْبَیْھِقِیُّ فِی الدَّعْوَاتِ الْکَبِیْرِ وَرَوَی التِّرْمِذِیُّ عَنْ اَبِیْ رَافِعٍ نَحْوَہ،۔

" حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس ابن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ اے عباس! اے میرے چچا کیا نہ دوں میں آپ کو؟ کیا نہ دوں میں آپ کو؟ کیا نہ بتاؤں میں آپ کو؟ کیا آپ کو دس خصلتوں کا مالک نہ بنادوں؟ کہ اگر آپ ان کو اختیار کریں تو اللہ تعالیٰ آپ کے اگلے اور پچھلے ، پرانے اور نئے ، قصدًا اور سہواً ، چھوٹے اور بڑے ، پوشیدہ اور ظاہر تمام گناہوں کو بخش دے (تو سنئے کہ) آپ چار رکعت نماز (اس طرح) پڑھئے کہ ہر رکعت میں سورت فاتحہ اور کوئی سورت پڑھیے۔ جب آپ پہلی رکعت میں قرأت سے فارغ ہو جائیں تو کھڑے ہی کھڑے پندرہ مرتبہ (یہ تسبیح) کہئے۔ سُبْحَانَ ا وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَا اِلٰہَ اِلَّا ا وَا وَا اَکْبَرُ پھر رکوع میں جائیے اور (رکوع کی تسبیح سبحان ربی العظیم کہنے کے بعد) رکوع میں یہ تسبیح دس مرتبہ کہئے پھر رکوع سے سر اٹھائیے اور (سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کے بعد ) یہ تسبیح دس مرتبہ کہے۔ پھر سجدے میں جائیے اور (سبحان ربی الاعلیٰ کہنے کے بعد ) یہ تسبیح دس مرتبہ کہے ، پھر سجدے سے سر اٹھائیے اور یہ تسبیح دس مرتبہ کہیے پھر (دوسرے) سجدے میں جائیے اور (سجدے کی تبلیغ کہنے کے بعد) یہ تسبیح دس مرتبہ کہے۔ پھر سجدے سے سر اٹھائیے اور یہ تسبیح دس مرتبہ کہئے یہ سب پچھتر تسبیحات ہوئیں ہر رکعت میں اسی طرح چاروں رکعت میں کیجئے ( یعنی مذکورہ طریقے سے یہ تسبیح پچھتر مرتبہ پڑھئے۔ اگر ہر ہفتہ میں نہ پڑھ سکیں تو مہینے میں ایک مرتبہ پڑھئے اگر ہر مہینہ میں نہ پڑھ سکیں تو سال میں ایک مرتبہ پڑھیے اور اگر ہر سال نہ پڑھ سکیں تو کم سے کم پوری عمر میں ایک مرتبہ (تو ضرور ہی) پڑھ لیجئے۔" (سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ، بیہقی، فی دعوات الکبیر) امام ترمذی نے اسی طرح کی روایت حضرت ابورافع سے نقل کیا ہے۔

تشریح
" کیا آپ کو دس خصلتوں کا مالک نہ بناؤں" ؟ کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو ایسی چیز بتائے دیتاہوں جس کو آپ اگر اختیار کریں گے تو آپ کے دس قسم کے گناہ (جو حدیث میں ذکر کئے گئے ہیں) بخش دئیے جائیں گے۔
بعض حضرات کا قول یہ ہے کہ" دس خصلتوں " سے مراد اس نماز میں حالت قیام کی پندرہ مرتبہ تسبیح کہنے کے علاوہ بقیہ حالتوں میں دس دس مرتبہ تسبیح کہنا ہے۔
حدیث میں لفظ علانیۃ کے بعد عَشَرَ خِصَالٍ کے الفاظ یہاں مشکوٰۃ میں ذکر نہیں کئے گئے ہیں ۔ لیکن " اصول" میں موجود ہیں۔ چنانچہ " حصن حصین" میں بھی یہ الفاظ نقل کئے گئے ہیں اسی لئے طیبی نے لکھا ہے کہ سیاق حدیث کے پیش نظریہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ دس خصلتوں سے مراد یہ چیزیں ہیں۔
(١) چار رکعت نماز پڑھنا۔ (٢) ہر رکعت میں سورت فاتحہ پڑھنا۔ (٣) سورت فاتحہ کے ساتھ کوئی اور صورت پڑھنا۔ (٤) حالت قیام میں پندرہ مرتبہ مذکورہ تسبیحات کا کہنا۔ (٥) ان تسبیحات کا رکوع میں دس مرتبہ کہنا۔ (٦) ان تسبیحات کا دس مرتبہ قومہ میں کہنا۔ (٧) ان تسبیحات کا دس مرتبہ سجدے میں کہنا ۔ (٨) ان تسبیحات کا دس مرتبہ جلسے میں کہنا۔ (٩) ان تسبیحات کا دس مرتبہ سجدے میں کہنا۔ (١٠) ان تسبیحات کا دس مرتبہ جلسہء استراحت میں کہنا۔
اس روایت سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ قیام میں قرأت کے بعد پندرہ مرتبہ یہ تسبیح پڑھی جائے اسی طرح روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے سجدہ سے اٹھ کر بھی یہ تسبیح پڑھی جائے جب کہ ہم نے ابتداء باب میں یہ طریقہ نقل کیا ہے کہ حالت قیام میں سبحانک اللھم کے بعد پندرہ مرتبہ تسبیح پڑھی جائے پھر قرأت کے بعد دس مرتبہ تسبیح پڑھی جائے اور دوسرے سجدے سے اٹھنے کے بعد تسبیح پڑھنے کا کوئی ذکر نہیں کیا ۔ تو یہ دونوں طریقے الگ الگ روایتوں میں مذکور ہیں پھر یہ کہ ان دونوں طریقوں میں تسبیح کی تعداد میں کوئی فرق نہیں ہے صرف پڑھنے کے مواقع میں فرق ہے اس لئے اختیار ہے کہ ان دونوں طریقوں میں سے جس طریقے کو چاہے اختیار کیا جائے اور بہتر یہ ہے کہ کبھی اس طریقے کے مطابق عمل کیا جائے اور کبھی اس طریقے کے مطابق تسبیحات پڑھی جائیں تاکہ قعدوں میں یہ تسبیحات بخلاف اور ارکان کے التحیات کے پہلے پڑھی جائیں۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے یہ منقول ہے کہ اس نماز میں یہ سورتیں پڑھی جائیں اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرْ۔ وَالْعَصْرِ ، قُلْ یَا اَیُّھَا الْکَافِرُوْنَ اور قُلْ ھُوَ ا اَحَدٌ بعض روایتوں میں اذا زلزلت وا لعادیات ، اذاجاء اور سورت اخلاص کا پڑھنا بھی منقول ہے۔
جلال الدین سیوطی نے امام احمد سے یہ نقل کیا ہے کہ نماز تسبیح میں سلام پھیرنے سے پہلے یہ دعا بھی پڑھنی چاہیے۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ تَوْفِیْقَ اَھْلِ الْھُدٰی وَاَعْمَالَ اَھْلِ الْیَقِیْنِ وَمُنَا صِحَۃِ اَھْلِ التَّوْبَۃِ وَعَزْمَ اَھْلِ الصَّبْرِ وَجَدَّاَھْلِ الْخَشْیَۃِ وَطَلَبُ اَھْلِ الرَّغْبَۃِ وَتَعَبُّدَ اَھْلِ الْوَرْعِ وَعِرْفَانَ اَھْلِ الْعِلْمِ حَتّٰی اَخَافَکَ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ مَخَافَۃَ تَحْجِزُنِیْ عَنْ مُعَاصِیْکَ وَحَتّٰی اَعْمَلَ بِطَاعَتِکَ عَمَلًا اَسْتَحِقُّ بِہ رَضَاکَ وَحَتّٰی اَنَا صِحُکَ بِالتَوْبَۃِ خَوْفًا مِنْکَ وَحَتّٰی اَخْلُصَ لَکَ النَصِیْحَۃَ حَیَائً مِنْکَ وَحَتّٰی اَتَوَکَّلَ عَلَیْکَ فِی الْاُمُوْرِ کُلِّھَا وَحُسْنَ ظَنٍّ بِکَ سُبْحَانَ خَالِقِ النُّوْرِ۔
" اے اللہ میں تجھ سے مانگتا ہوں اہل ہدایت کی سی توفیق اہل یقین (یعنی راسخ العقیدہ اور راسخ العمل لوگوں) کے سے اعمال، اہل توبہ کی سی خالص توبہ ، اہل صبر کی سی پختگی ، اہل خشیت کی سخت کوشش ، طالبین حق کی سی طلب، پرہیز گاروں کی سی عبادت اور اہل علم کی سی معرفت یہاں تک کہ میں تیری ہی ذات سے ڈرنے لگوں ۔ اے اللہ ! میں تجھ سے (تیرے) خوف کا طلبگار ہوں جو مجھے تیری نافرمانیوں سے روک دے تاکہ میں تیری فرما نبرداری و خوشنودی کے وہ عمل کرنے لگوں جو مجھے تیری رضا کا مستحق گردانے تیرے خوف سے سچی توبہ کرنے لگوں یہاں تک کہ تیری ذات پر اچھا گمان رکھتے ہوئے تمام امور میں تیری ذات پر بھروسہ کرنے لگوں اور اپنے نور کے پیدا کرنے والے آپ ہر عیب اور برائی سے پاک ہیں۔"
اس نماز کی فضیلت کے بارے میں عبدالعزیز ابن داؤد لکھتے ہیں کہ جو آدمی جنت میں داخل ہو نا چاہے تو وہ نماز تسبیح کو اپنے اوپر لازم قرار دے لے۔
ابو عثمان زاہد نے فرمایا ہے کہ مصیبت و پریشانی کے دفیعہ اور غم و ھزن کو دور کرنے کے لئے اس نماز کے علاوہ میں نے کوئی اور چیز نہیں پائی۔ یعنی نماز تسبیح پڑھنے سے یہ چیزیں جاتی رہتی ہیں۔
اس نماز کی انہیں عظیم فضیلتوں کے پیش نظر اکثر ائمہ و مشائخ اور بزرگ اس نماز کو پڑھتے رہے ہیں۔ جمعہ کے روز دوپہر ڈھلنے کے بعد اس نماز کا پڑھنا مستحب ہے اگر اس نماز میں سجدہ سہو کی ضرورت پڑجائے تو سجدہ سہو کے اندر یہ تسبیحات نہ پڑھی جائیں کیونکہ اس طرح تسبیحات کی مقدار تین سو سے آگے بڑھ جائے گی۔
جن مسلمانوں کو اللہ نے اپنی عبادت و اطاعت کی توفیق دی ہے اور انہیں زیادہ سے زیادہ عمل خیر کرنے کی سعادت سے نوازا ہے ان کیلئے اس نماز کے پڑھنے کے سلسلہ میں درجہ اعتدال یہ ہے کہ یہ نماز ہر جمعہ کو پڑھی جائے چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا اسی پر عمل تھا کہ وہ ہر جمعہ کے روز زوال کے بعد اس نماز کو پڑھتے تھے اور انہیں سورتوں کی قرأت کرتے تھے جو ابھی اوپر ان سے نقل کی گئی ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں