تحیۃ الوضو کی فضیلت
راوی:
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لِبِلَالٍ عِنْدَ صَلٰوۃِ الْفَجْرِ ےَا بِلَالُ حَدِّثْنِیْ بِاَرْجٰی عَمَلٍ عَمِلْتَہُ فِی الْاِسْلَامِ فَاِنِّیْ سَمِعْتُ دَفَّ نَعْلَےْکَ بَےْنَ ےَدَیَّ فِی الْجَنَّۃِ قَالَ مَا عَمِلْتُ عَمَلًا اَرْجٰی عِنْدِیْ اَنِّیْ لَمْ اَتَطَھَّرْ طُھُوْرًا فِیْ سَاعَۃِ مِّنْ لَّےْلٍ وَلا نَھَارٍ اِلَّا صَلَّےْتُ بِذَالِکَ الطُّھُوْرِ مَا کُتِبَ لِیْ اَنْ اُصَلِّیَ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)
" حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر کے وقت حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ بلال ذرا مجھے یہ بتاؤ کہ تم نے حالت اسلام میں کون سا عمل کیا ہے جس سے تمہیں ثواب کی بہت زیادہ امید ہے کیونکہ میں نے جنت میں اپنے آگے تمہارے جوتوں کی آواز سنی ہے ۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا " میں نے ایسی زیادہ امید کا کوئی عمل نہیں کیا سوائے اس کے کہ رات دن میں جب بھی میں پاکی حاصل کرتا ہوں تو اس پاکی سے جس قدر میرے مقدر میں ہے میں نماز ضرور پڑھتا ہوں۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم )
تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جنت میں اپنے آگے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قدموں کی آواز سننا بذریعہ مکاشفہ تھا کہ عالم غیب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نیند کی حالت میں یا حالت بیداری میں یہ ظاہر کیا گیا یا پھر یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شب معراج میں جنت میں اپنے آگے حضرت بلال کے جو توں کی آواز سنی ہوگی۔
حضرت بلال کا رسول اللہ کے آگے چلنا (جیسا کہ آپ نے ان کے جو توں کی آواز سنی ) اسی درجہ میں تھا جس درجہ میں کہ خدام کا مخدوم کے آگے چلنا ہوتا ہے۔
" پاکی" سے مراد وضو بھی ہو سکتا ہے اور غسل تیمم بھی۔ اس طرح یہ تینوں بھی اس سے مراد لئے جا سکتے ہیں۔
اس حدیث میں جس نماز کی فضیلت کا بیان کیا گیا ہے وہ نماز وہ ہے جو وضو کرنے کے بعد پڑھی جاتی ہے۔ اس نماز کو اصطلاح میں تحیۃ الوضو یا شکر وضو کہتے ہیں۔