نماز اشراق کی فضیلت
راوی:
وَعَنْ بُرَیْدَۃَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ فِی الْاِنْسَانِ ثَلَاثُ مِائَۃٍ وَسِتُّوْنَ مَفْصِلًا فَعَلَیْہِ اَنْ یَتَصَدَّقَ عَنْ کُلِّ مَفْصِلٍ مِنْہُ بِصَدَقَۃٍ قَالُوْ اوَ مَنْ یُطِیْقُ ذٰلِکَ یَا نَبِیَّ اﷲِ قَالَ النُّخَاعَۃُ فِی الْمَسْجِدِ تَدْفِنھَا وَالشَّئُ تُنْحِیَّہِ عَنِ الطَّرِیْقِ فَاِنْ لَمْ تَجِدْ فَرَکْعَتَا الضُّحٰی تُجْزِءُ کَ۔ (رواہ ابوداؤد)
" اور حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ " انسان (کے جسم) میں تین سو ساٹھ بند (جوڑ) ہیں لہٰذا ہر انسان کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے جسم کے ہر جوڑ کے بدلے میں صدقہ دے " صحابہ کرام نے عرض کیا کہ " یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم)! کون اس کی طاقت رکھتا ہے؟ (کہ اپنے جسم کے ہر ہر جوڑ کے بدلے میں صدقہ دے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " مسجد میں پڑے ہوئے تھوک کو دفن کر دینا (صدقہ ہی دینا ہے) راستے سے کسی (تکلیف دہ) چیز (مثلاً نجاست کا نٹے، پتھر) کو ہٹا دینا (بھی ایک صدقہ ہے) اور اگر تو (تین سو ساٹھ جوڑوں کی طرف سے صدقہ دینے والی کوئی چیز) نہ پاؤ تو ضحٰی ( یعنی اشراق ) کی دو رکعتیں پڑھ لینا تمہارے لئے کافی ہے ۔" (اس کے بعد کسی دوسرے صدقے کی ضرورت نہیں ہے)۔" (ابوداؤد)
تشریح
" لازم" سے مراد وجوب شرعی نہیں ہے کہ جس کو چھوڑنے والا گنہ گار ہوتا ہے بلکہ تاکید مراد ہے کیونکہ نہ تو ضحی کی دو رکعتوں کو خواہ وہ نماز اشراق ہو یا نماز چاشت کسی بھی امام اور عالم نے واجب کہا ہے اور نہ کسی کے نزدیک مذکورہ بالا دونوں صدقے ہی واجب ہیں۔ اگرچہ نہ صرف یہ کہ شریعت کی رو سے بلکہ عقلا بھی دیکھا جائے تو فیصلہ یہی کرنا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نعمت پر اجمالی اور تفصیلی دونوں طریقوں سے شکر ادا کرنا ہر انسان پر واجب ہے۔