پندرہویں شعبان کے روزے اور شب برات کی عبادت کا حکم
راوی:
وَعَنْ عَلِیٍّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا کَانَتْ لَیْلَۃُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقُوْمُوْا لَیْلَھَا وَصُوْمُوْا یَوْمَھَا فَاِنَّ اﷲَ تَعَالٰی یَنْزِلُ فِیْھَا لِغُرُوْبِ الشَّمْسِ اِلَی السَّمَاءِ الدُّنْیَا فَیَقُوْلُ الَاَ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ فَاَغْفِرُ لَہ، اَلَا مُسْتَرْزِقٍ فَاَرْزُقَہ، الَاَ مُبْتَلًی فَاُعَا فِیَہُ اَلاَ کَذَا الَاَ کَذَا حَتّٰی یَطُلُعُ الْفَجْرُ۔ (رواہ ابن ماجۃ)
" اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ " جب نصف شعبان کی رات ہو (یعنی شب برات) تو اس رات کو نماز پڑھو اور اس کے دن میں (یعنی پندرہویں کو ) روزہ رکھو، کیونکہ اللہ جل شانہ ، اس رات کو آفتاب چھپنے کے وقت آسمان دنیا (یعنی نیچے کے آسمان) پر نزول فرماتا ہے (یعنی اپنی رحمت عام کے ساتھ متوجہ ہوتا ہے) اور (دنیا والوں سے) فرما تا ہے کہ " آگاہ ! ہے کوئی بخشش چاہنے والا کہ میں اسے بخشوں؟ آگاہ! ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اسے رزق دوں؟ آگاہ! ہے کوئی گرفتار مصیبت کہ میں اسے عافیت بخشوں؟ آگاہ! ہے کوئی ایسا اور ایسا (یعنی اسی طرح اللہ تعالیٰ ہر ضرورت اور ہر تکلیف کا نام لے کر اپنے بندوں کو پکارتا رہتا ہے مثلاً فرماتا ہے مثلاً کوئی مانگنے والا ہے کہ میں عطا کروں؟ ہے کوئی غمگین کہ میں اسے خوشی و مسرت کے خزانے بخشوں؟ وغیرہ وغیرہ یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے۔" (سنن ابن ماجہ)
تشریح
شب برأت کی عظمتوں اور فضیلتوں کا کیا ٹھکانہ ؟ یہی وہ مقدس شب ہے کہ پروردگار عالم اپنی رحمت کاملہ اور رحمت عامہ کے ساتھ اہل دنیا کی طرف متوجہ ہوتا ہے دنیا والوں کو اپنی رحمت کی طرف لاتا ہے، ان کے دامن میں رحمت و بخشش اور عطاء کے خزانے بھرتا ہے۔
خوشخبری ہو ان نفوس قدسیہ کو اور ان خوش بختوں کو جو اس مقدس شب میں اپنے پروردگار کی رحمت کا سایہ ڈھونڈھتے ہیں عبادت و بندگی کرتے ہیں اپنے مولیٰ کی بارگاہ میں اپنی ضرورتوں اور حاجتوں کی درخواست پیش کرتے ہیں اور مولیٰ ان کی دخواستوں کو اپنی رحمت کاملہ کے صدقے قبول فرماتا ہے۔
واحسرتا! ان حرماں نصیبوں پر، جو اس بابرکت و باعظمت شب کی تقدیس کا استقبال لہو و لعب سے کرتے ہیں، آتش بازی جیسے قبیح فعل میں مبتلا ہو کر اپنی نیک بختی و سعادت کو بھسم کرتے ہیں ، کھیل کود اور حلوے مانڈے کے چکر میں پڑ کر رحمت الٰہی سے بعد اختیار کرتے ہیں۔
ا اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم شب برأت کی عظمت و فضیلت کا احساس کریں۔ اس رات کی تقدیس کا احترام کریں اور عبادت و بندگی کا مخلصا نہ نذرانہ پروردگار کی بارگاہ میں پیش کر کے اس کی رحمت عامہ سے اپنے دین و دنیا کی سعادتوں اور کامرانیوں کو حاصل کریں اکثر صحابہ مثلاً حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبداللہ ابن مسعود وغیرھما سے منقول ہے کہ وہ اس رات کو یہ دعا بطور خاص پڑھا کرتے تھے :
اَللّٰھُمَّ اِنْ کُنْتَ کَتَبْنَا اَشْقِیَاء فَاَمْحُہ، وَاکْتُبْنَا سَعداء وَاِنْ کُنْتَ کَتَبْنَا سَعْدَاء فَاثْبِتْنَا فَاِنَّکَ تَمْھُوْمَنْ تَشَاْءَ وَتُثْبِتْ عِنْدَکَ اُمُّ الْکِتَابُ۔
" اے پروردگار! اگر تو نے (لوح محفوظ میں) ہمیں شقی لکھ رکھا ہے تو اسے مٹا دے اور ہمیں سعید و نیک بخت لکھ دے اور اگر تو نے (لوح محفوظ میں) ہمیں سعید و نیک بخت لکھ رکھا ہے تو اسے قائم رکھ، بیشک جسے تو چاہے مٹائے اور جسے چاہے قائم رکھے اور تیرے ہی پاس امر الکتاب (لوح محفوظ) ہے۔
پندرہویں شعبان کی شب میں اس دعا کا پڑھنا حدیث میں منقول ہے لیکن یہ حدیث قوی نہیں ہے اس دعا کے الفاظ ان کنت کتبنا اشقیاء میں کتابت سے مراد " کتابت معلقہ" ہے کہ اس میں تغیر و تبدل ممکن ہے یہاں " کتابت محکمہ" مراد نہیں ہے۔ کیونکہ لوح محفوظ میں آخری طور پر جو بات محکم لکھ دی گئی ہے اس میں تغیر و تبدل ممکن نہیں ہے۔"
پندرہویں شعبان کی شب میں نماز الفیہ پڑھنے کی حقیقت۔ کتاب الآلی میں لکھا ہے کہ " اس رات کو نماز الفیہ یعنی سو رکعتیں نفل نماز اس طرح پڑھی جائیں کہ ہر رکعت میں دس دس قل کی قرأت ہو جیسا کہ دیلمی وغیرہ نے روایت کیا ہے۔" لیکن یہ روایت موضوع ہے چنانچہ اس سلسلے میں بعض رسائل میں لکھا ہے کہ علی بن ابراہیم نے فرمایا کہ یہ " جو طریقہ رائج کیا گیا ہے کہ پندرہویں شعبان کی شب کو نماز الفیہ پڑھی جاتی ہے ۔ (یعنی سو رکعتیں اس طرح پڑھتے ہیں کہ ہر رکعت میں دس دس قل کی قرأت ہوتی ہے اور اس کو جماعت سے ادا کرتے ہیں۔ پھر یہ کہ اس میں نماز جمعہ و عیدین سے بھی زیادہ اہتمام کرتے ہیں اس کے بارے میں نہ کوئی صحیح حدیث ہی ثابت ہے نہ کسی صحابی و تابعی کا کوئی مضبوط ارشاد ہی منقول ہے الاّ یہ کہ اس سلسلے میں ضعیف اور موضوع روایتیں ضرور نقل کی جاتی ہیں لہٰذا کوئی آدمی صاحب قوت القلوب اور صاحب اخبار وغیرھما کے منقولات سے اس سلسلے میں غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو جائے (یعنی یہ نماز نہ پڑھی جائے کیونکہ) عوام اس نماز کی وجہ سے زیادہ فتنوں میں مبتلا ہو چکے ہیں، یہاں تک کہ اس نماز کی ادائیگی کے وقت روشنی و چراغاں کو جائے کیونکہ) عوام اس نماز کی وجہ سے زیادہ فتنوں میں مبتلا ہو چکے ہیں، یہاں تک کہ اس نماز کی ادائیگی کے وقت روشنی و چراغاں کو ضروری قرار دیدیا گیا تھا جس کی وجہ سے اکثر فسق وفجور کے کام صادر ہونے لگے۔
چنانچہ بہت سے اولیاء اللہ ان امور کی وجہ سے ڈرے کہ کہیں اللہ کا کوئی اور ادبار و عذاب نازل نہ ہو جائے چنانچہ وہ اتنے زیادہ خوف زدہ اور پریشان ہوئے کہ وہ آبادیوں کو چھوڑ کر اور عبادت الٰہی کی آڑ میں ہونے والے فسق و فجور سے منہ موڑ کر جنگلوں میں چلے گئے اس نماز کی ابتدا کے بارہ میں لکھتے ہیں کہ اول اول یہ نماز بیت المقدس میں ٤٤٨ھ میں شروع ہوئی اور اس طریقے کے رائج ہونے کی وجہ یہ تھی کہ اس زمانے کے جاہل اور اقتدار طلب ائمہ مساجد نے اپنے جذبہ اقتدار اور جاہ طلبی کی تسکین کے لئے اور عوام کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو اپنے اردگرد جمع کرنے کے لئے ڈھونگ رچایا چنانچہ اس طرح انہوں نے بہت سے فائدے بھی حاصل کئے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے نیک و صالح ائمہ کو پیدا کیا ، انہوں نے اس بدعت کی بیخ کنی میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا۔ چنانچہ اللہ کے ان نیک بندوں کی سعی و کوشش سے یہ طریقہ ختم ہوا یہاں تک کہ ٨٠٠ھ کے اوائل میں مصر و شام کے شہروں میں یہ بدعت بالکل ہی ختم ہوگئی۔"
ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ بالا مضمون نقل کرنے کے بعد رقم طراز ہیں کہ ۔" اس سلسلے میں میں یہ کہتا ہوں (اتنی بات تو طے ہے کہ نماز الفیہ کے سلسلہ میں حدیث ضعیف منقول ہے اور نفل اعمال کے سلسلے میں، ضعیف حدیث پر بھی عمل کرنا جائز ہے علماء نے اس نماز کے پڑھنے سے جو منع کیا ہے وہ اس لئے کہ اس کے ساتھ بہت زیادہ منکرات (مثلاً چراغاں وغیرہ) کا اجتماع ہو گیا تھا لہٰذا اگر کوئی آدمی تنہا اور مذکورہ بالا منکرات کے بغیر اس نماز کو پڑھنا تو جائز ہے پڑھ سکتا ہے
اس نماز کے وقت چراغاں کی ابتدا اور اس کی وجہ کے بارے میں منقول ہے کہ " اول اول چراغاں کا رواج قوم برامکہ میں ہوا۔ کیونکہ یہ قوم پہلے آتش پرست تھی جب یہ لوگ مسلمان ہوگئے تو چونکہ ان کے قلب کی گہرائیوں نے ایمان اور اسلام کو پوری طرح قبول نہیں کیا تھا اور ان کے دل میں اپنے قدیم مذہب کی کسی نہ کسی حیثیت محبت باقی تھی اس لئے انہوں نے ایک ایسی چیز کو اسلام میں داخل کیا جو اس وہم میں مبتلا کر دے کہ یہ سنت اور شعار دین میں سے ہے۔ یعنی اس نماز کے وقت چراغاں کرنے لگے جس سے دراصل ان کا مقصد آگ کی عبادت کرنا تھا کیونکہ وہ عام مسلمانوں کے ساتھ اس (چراغ کی شکل میں) آگ کی طرف رکوع و سجدے کرتے تھے۔
کسی بھی عمل کے وقت چراغاں کرنا مستحب نہیں ہے : کسی دوسری ضرورت و حاجت کے وقت کسی بھی جگہ چراغاں کرنا شریعت میں مستحب نہیں ہے چنانچہ بعض حاجی جو پڑھے لکھے نہیں ہوتے جبل عرفات مشعر حرام اور منی میں چراغ وغیرہ جلاتے ہیں اس کی بھی کوئی حقیقت نہیں ہے بلکہ یہ اختراع محض ہے جس سے اجتناب ضروری ہے۔
تراویح کی ختم رات میں نمائشی اجتماع بدعت ہے : علامہ طرطوسی کی تحقیق یہ ہے کہ 'جس رات میں تراویح ختم ہوتی ہے اس موقع پر (محض ختم میں شرکت کے لئے) عوام کا اجتماع یا منبر و غیرہ نصب (یا چراغاں) کرنا بدعت ہے۔
ملا علی قاری علامہ طرطوسی کی اس تحقیق کے بارے میں فرماتے ہیں ۔ کہ اللہ تعالیٰ طرطوسی پر اپنی رحمت نازل فرمائے انہوں نے کیا (عمدہ) تحقیق کی ہے اور (بڑے تعجب کی بات یہ ہے) اس غلط طریقے کو اہل حرمین شریفین نے اختیار کیا ہوا ہے چنانچہ وہاں جس رات کو تراویح ختم ہوتی ہے اس موقع پر مردوں، عورتوں ، لڑکوں اور غلاموں کا اس قدر ( اتنے اہتمام کے ساتھ) اجتماع ہوتا ہے کہ نماز عیدین، نماز جمعہ اور نماز کسوف میں بھی اتنے زیادہ لوگ جمع نہیں ہوتے۔ اس اجتماع کے موقع پر بہت زیادہ نئے نئے منکرات اور غلط اور فاسد اعمال اور افعال کا صدور ہوتا ہے لوگ چراغوں کی طرف منہ کرتے ہیں اور بیت اللہ شریف کی طرف پیٹھ کرتے ہیں اور مطاف کے درمیان بالکل آتش پرستوں کی طرح اس اژدہام کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں کہ وہاں کی جگہ طواف کرنے والوں کے لئے تنگ اور پریشان کن ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے اس وقت طواف کرنے والے اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہنے والے نمازی اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے بہت زیادہ تکلیف وپریشانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں فَنَسْأَلُ ا الْعَفُوّ وَالْعَافِیَۃَ وَالْغُفْرَانَ وَالْرِّضْوَانَ وَا الْمُسْتَعَانُ۔