مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ تراویح کا بیان ۔ حدیث 1276

تراویح کی رکعتوں کی تعداد

راوی:

وَعَنِ الْاَعْرَجِ قَالَ مَا اَدْرَکْنَا النَّاسَ اِلَّا وَھُمْ یَلْعَنُوْنَ الْکَفَرَۃَ فِیْ رَمَضَانَ قَالَ وَکَانَ الْقَارِئُ یَقْرَأُ سُوْرَۃَ بَقْرَۃَ فِیْ ثَمَانِیِّ رَکْعَاتٍ فَاِذَا قَامَ بِھَافِیْ ثِنْتَی عَشَرَۃَ رَکْعَۃً رَأَی النَّاسُ اَنَّہ، قَدْ خَفَّفَ۔ (رواہ مالک)

" اور حضرت اعرج (تابعی) فرماتے ہیں کہ " ہم نے ہمیشہ لوگوں کو دیکھا کہ وہ رمضان (کے روزوں) میں کفار پر لعنت بھیجا کرتے تھے اور (اس زمانے میں) قاری (یعنی نماز تراویح کا امام) سورت بقرہ کو آٹھ رکعتوں میں پڑھا کرتا تھا اور اگر (کبھی) سورت بقرہ کو بارہ رکعتوں میں پڑھتا تو لوگ سمجھتے کہ نماز ہلکی پڑھی گئی ہے۔" (مالک)

تشریح
گو حدیث سے بصراحت یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کفار پر لعنت پورے رمضان کے وتروں کے ساتھ مخصوص تھا۔ اس طرح تمام حدیثوں میں تطبیق پیدا ہو جائے گی چنانچہ اس مفہوم کو اختیار کرنے کے بعد یہ حدیث حضرت عمر کی اس حدیث کے منافی نہیں ہوگی جس سے ثابت ہو چکا ہے کہ جب رمضان کا نصف حصہ گذ رجائے تو وتروں میں کفار پر لعنت بھیجنا سنت ہے۔
کفار پر لعنت بھیجنے کا سبب یہ تھا کہ جب کفار نے اس بابرکت اور مقدس و باعظمت مہینے کی تعظیم نہ کی جس کی عظمت و بزرگی خودباری تعالیٰ عزاسمہ نے بیان فرمائی ہے اور سر چشمہ ہدایت و فیضان کلام اللہ سے ذرہ برابر بھی ہدایت حاصل نہیں کی جو اسی باعظمت مہینے میں نازل ہوا ہے تو وہ اس بات کے مستحق ہوئے کہ ان پر لعنت بھیجی جائے۔
نماز تراویح کی رکعتوں کی تعداد کے بارے میں ابھی پیچھے ذکر کیا جا چکا ہے ایک مرتبہ پھر سمجھ لیجئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تراویح کی رکعتوں کی کوئی تعداد متعین نہیں فرمائی تھی بلکہ اس سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مختلف رہا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ رکعتیں بھی مسنون ہیں اور یہ بھی آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ رکعتیں پڑھی ہیں۔ اسی طرح تیرہ اور بیس رکعتیں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھنی منقول ہیں مگر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں تراویح کی بیس رکعتیں متعین فرما دیں اس کے بعد تمام صحابہ کا اسی پر عمل رہا حضرت عثمان اور حضرت عملی رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے بھی اپنے اپنے زمانہ خلافت میں اس کا انتظام رکھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ " میری سنت اور میرے خلفاء راشدین کی سنت اپنے اوپر لازم قرار دو ، اسے اپنے دانتوں سے پکڑو"
لہٰذا اگر کوئی آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کی موجودگی میں تراویح کی بیس رکعتوں کا اس لئے قائل نہیں ہوتا کہ ان کا ثبوت قطعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ہے تو اس کے بارے میں سوائے اس کے اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ کہ وہ منشاء نبوت اور حقیقت سنت کی صریح خلاف ورزی کر رہا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں