مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ ایمان کا بیان ۔ حدیث 127

عذاب قبر کے ثبوت کا بیان

راوی:

وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَآ اُقْبِرَ الْمَیِّتُ اَتَاہُ مَلَکَانِ اَسْوَدَانِ اَزْرَ قَانَ یُقَالُ لِاَحَدِ ھِمَا الْمُنْکَرُ وَ لِلْاٰخَرِ النَّکِیْرُ فَیَقُوْ لَانِ مَاکُنْتَ تَقُوْلُ فِیْ ھٰذَا الرَّجُلِ ؟ فَاِنْ کَانَ مُؤْمِنًا فَیَقُوْلُ ھُوَ عَبْدُاﷲِ وَرَسُوْلُہ،، اَشْھَدُ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ، وَرَسُوْلُہ، فَیَقُوْلَاِن قَدْ کُنَّا نَعْلَمُ اَنَّکَ تَقُوْلُ ھٰذَا ثُمَّ یُفْسَحُ لَہ، فِی قَبْرِہٖ سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا فِیْ سَبْعِیْنَ ثُمَّ یُنَوَّرُلَہ، فِیْہِ ثُمَّ یُقَالُ لَہ، نَمْ فَیَقُوْلُ اَرْجِعْ اِلٰۤی اَھْلِیْ فَاُخْبِرُھُمْ فَیَقُوْلَاِن نَمْ کَنَوْمَۃِ الْعَرُوْسِ الَّذِیْ لَا یُوْقِظُہ، اِلَّا اَحَبُّ اَھْلِہٖ اِلَیْہِ حَتّٰی یَبْعَثَہُ اﷲُ مِنْ مَضْجَعِہٖ ذٰلِکَ وَاِنْ کَانَ مُنَا فِقًا قَالَ سَمِعْتُ النَّاس یَقُوْلُوْنَ قَوْلًا فَقُلْتُ مِثْلَہ، لَآ اَدْرِیْ فَیَقُوْلَانِ قَدْ کُنَّا نَعْلَمُ اَنَّکَ تَقُوْلُ ذٰلِکَ فَیُقَالُ لِلْاَرْضِ الْتَمِِی عَلَیْہِ فَتَلْتَئِمْ عَلَیْہِ فَتَخْتَلِفُ اَضْلاَعُہ، فَلَا یَزَالُ فِیْھَا مُعَذَّبًا حَتّٰی یَبْعَثَہُ اﷲُ مِنْ مَضْجَعِہٖ ذٰلِکَ۔ (رواہ الجامع ترمذی)

" اور حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب مردہ کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے تو اس کے پاس کالی کیری آنکھوں والے دو فرشتے آتے ہیں جن میں سے ایک کو منکر اور دوسرے نکیر کہتے ہیں وہ دونوں اس مردہ سے پوچھتے ہیں کہ تم اس آدمی یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کیا کہتے تھے؟ اگر وہ آدمی مومن ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ وہ اللہ کے بندے ہیں اور اس کے بھیجے ہوئے (رسول) ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور بلاشبہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، (یہ سن کر) وہ دونوں فرشتے فرماتے ہیں ۔ ہم جانتے تھے کہ تو یقینًا یہی کہے گا، اس کے بعد اس کی قبر کی لمبائی اور چوڑائی میں ستّر ستّر گز کشادہ کر دی جاتی ہے اور اس مردہ سے کہا جاتا ہے کہ (سو جاؤ) مردہ کہتا ہے (میں چاہتا ہوں) کہ اپنے اہل و عیال میں واپس چلا جاؤں تاکہ ان کو (اپنے اس حال سے) باخبر کردوں۔ فرشتے اس سے فرماتے ہیں تو اس دولہا کی طرح سوجا جس کو صرف وہی آدمی جگا سکتا ہے جو اس کے نزدیک سب سے محبوب ہو یعنی ہر کسی کا جگانا اچھا نہیں لگتا کیونکہ اس سے وحشت ہوتی ہے البتہ جب محبوب جگاتا ہے تو اچھا لگتا ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس جگہ سے اٹھائے۔ اور اگر وہ مردہ منافق ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ میں نے لوگوں کو جو کچھ کہتے سنا تھا وہی میں کہتا تھا لیکن میں (اس کی حقیقت کو) نہیں جانتا (منافق کا یہ جواب سن کر) فرشتے فرماتے ہیں ہم جانتے ہیں کہ یقینًا تو یہی کہے گا، (اس کے بعد ) زمین کو مل جانے کا حکم دیا جاتا ہے، چنانچہ زمین اس مردہ کو اس طرح دباتی ہے کہ اس کی دائیں پسلیاں بائیں اور بائیں پسلیاں دائیں نکل آتی ہیں اور اسی طرح ہمیشہ عذاب میں مبتلا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس جگہ سے اٹھائے۔" (جامع ترمذی )

تشریح
قبر میں فرشتے ہیبت ناک اور خوفناک شکل میں آتے ہیں تاکہ ان کے خوف اور شکل کی وجہ سے کافروں پر ہیبت طاری ہو جائے اور وہ جواب دینے میں بد حو اس ہو جائیں لیکن یہ مومنوں کے لئے آزمائش و امتحان ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ ان کو ثابت قدم رکھتا ہے اور وہ نڈر ہو کر صحیح جواب دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کامیاب ہو جاتے ہیں اس لئے کہ وہ دنیا میں اللہ سے ڈرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ قبر میں ہر قسم کے خوف و ہر اس سے نڈر ہو جاتے ہیں۔
مردہ کے جواب میں فرشتوں کا یہ کہنا کہ" ہم جانتے ہیں کہ تو یقینًا یہی کہے گا " یا تو اس بناء پر ہوگا کہ پروردگار عالم کی جانب سے ان کو خبر دی جاتی ہوگی کہ فلاں مردہ یہ جواب دے گا اور فلاں مردہ وہ جواب دے گا، یا وہ مردہ کی پیشانی اور اس کے آثار سے یہ معلوم کر لیتے ہیں۔ کہ مومن کی پیشانی پر نور ایمانی کی چمک اور سعادت و نیک بختی کا نشان ہوتا ہے اور کافر و منافق کے چہرہ پر پھٹکار برستی ہے۔
مومن جب صحیح جواب دے دیتا ہے اور اس پر اللہ کی رحمت اور اس کی نعمتوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں تو اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال کو اس اچھے معاملہ اور عظیم نعمت کی خبر دے دے جیسا کہ جب کوئی مسافر کسی جگہ راحت و سکون پاتا ہے اور وہاں عیش و آرام کے سامان اسے ملتے ہیں تو اس کی تمنا یہی ہوتی ہے کہ کاش اس وقت میں اپنے اہل و عیال اور اعزا و اقرباء کے پاس جاتا تاکہ انہیں اپنے اس آرام و راحت سے اور چین و سکون سے مطلع کر دیتا ۔ اس لئے مومن مردہ اپنے اہل و عیال کے پاس واپس جانے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں