مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ تراویح کا بیان ۔ حدیث 1268

با جماعت نماز تراویح سنت ہے

راوی:

عَنْ زَےْدِ بْنِ ثَابِتٍص اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم اِتَّخَذَ حُجْرَۃً فِی الْمَسْجِدِ مِنْ حَصِےْرٍ فَصَلّٰی فِےْھَا لَےَالِیَ حَتَّی اجْتَمَعَ عَلَےْہِ نَاسٌ ثُمَّ فَقَدُوْا صَوْتَہُ لَےْلَۃً وَظَنُّوْا اَنَّہُ قَدْ نَامَ فَجَعَلَ بَعْضُھُمْ ےَتَنَحْنَحُ لِےَخْرُجَ اِلَےْھِمْ فَقَالَ مَا زَالَ بِکُمُ الَّذِیْ رَاَےْتُ مِنْ صَنِےْعِکُمْ حَتّٰی خَشِےْتُ اَنْ ےُّکْتَبَ عَلَےْکُمْ وَلَوْ کُتِبَ عَلَےْکُمْ مَا قُمْتُمْ بِہٖ فَصَلُّوْا اَےُّھَا النَّاسُ فِیْ بُےُوْتِکُمْ فَاِنَّ اَفْضَلَ صَلٰوۃِ الْمَرْءِ فِیْ بَےْتِہٖ اِلَّا الصَّلٰوۃَ الْمَکْتُوْبَۃَ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)

" حضرت زید ابن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (رمضان میں) مسجد میں بورئیے کا ایک حجرہ بنایا اور کئی راتیں اس میں (تراویح کے علاوہ نفل) نماز پڑھی (جب لوگ جمع ہو جاتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجرے سے باہر تشریف لاتے اور فرائض و تراویح جماعت کے ساتھ پڑھتے) یہاں تک کہ (ایک روز بہت زیادہ) لوگ جمع ہو گئے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ فرض نماز پڑھ کر حجرے میں تشریف لے جا چکے تھے اور جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کچھ دیر کے بعد باہر تشریف نہ لائے اس لئے لوگوں نے آپ کی کوئی آہٹ محسوس نہیں کی چنانچہ وہ یہ سمجھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے اور لوگوں نے کھنکارنا شروع کیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (بیدار ہو جائیں اور نماز تراویح کے لئے) باہر تشریف لے آئیں (جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گذشتہ راتوں میں تشریف لاتے تھے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حجرہ سے باہر نکل کر یا اندر ہی سے ) فرمایا کہ " تمہارا کام جو میں دیکھ رہا ہوں برابر جاری رہے (یعنی جماعت سے تراویح پڑھنے کا شوق اور عبادت کے معاملہ میں تمہارا جذبہ ہمیشہ رہے اور پھر فرمایا ) لیکن مجھے یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ ہو جائے (یعنی اگر میں ہمیشہ نماز تراویح جماعت سے پڑھتا تو یہ نماز تم پر فرض ہو جاتی ) اور اگر یہ نماز فرض ہو جاتی تو تم اس کی ادائیگی سے قاصر رہتے، لہٰذا اے لوگو! تم اپنے گھروں میں نماز پڑھا کرو کیونکہ انسان کی بہترین نماز وہی ہے جسے اس نے اپنے گھر میں پڑھا ہو سوائے فرض نماز کے (کہ اسے مسجد میں ہی پڑھنا افضل ہے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

تشریح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی میں اعتکاف کے لئے بورئیے کا ایک حجرہ سا بنا لیا تھا ۔ اسی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کی با برکت اور مقدس ساعتوں میں عبادت الٰہی اور ذکر اللہ میں مشغول رہا کرتے تھے اس سے معلوم ہوا کہ مسجد میں بورئیے کا یا اسی قسم کی کسی دوسری چیز کا معتکف بنا لینا جائز ہے لیکن یہ شرائط کہ اپنی حاجت و ضرورت سے زیادہ جگہ نہ روکی جائے ورنہ تو بصورت دیگر حرام ہوگا کیونکہ زیادہ جگہ گھیرنے سے دوسرے نمازیوں کو تنگی ہوگی بشرطیکہ جگہ ایسی ہو جس کی لوگوں کو احتیاج اور ضرورت ہو اگرچہ کبھی کبھی ہی ضرورت ہو ہاں اگر کوئی آدمی قرینے سے جانتا ہو کہ اگر لوگ بہت تعداد میں بھی مسجد میں آجائیں گے تب بھی متعکف کے لئے گھیری ہوئی جگہ کی انہیں احتیاج نہیں ہوگی تو ایسی صورت میں ضرورت سے زیادہ بھی جگہ گھیر لینا حرام نہیں ہوگا یہ تفصیل اس بات پر بصراحت دلالت کرتی ہے کہ ایام حج میں مسجد حرام کے اندر لوگوں کو تنگی میں مبتلا کرنا حرام ہے۔
یہ حدیث جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے حق میں انتہائی شان رحمت کی غمازی کر رہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تراویح کی جماعت پر اس لئے مداومت نہیں فرمائی کہ کہیں یہ نماز امت کے لئے فرض ہی قرار نہ دیدی جائے جس سے امت کے لوگ تنگی و پریشانی میں مبتلا ہو جائیں۔ وہیں یہ حدیث اس بات کی بھی صریح دلیل ہے کہ تراویح کی نماز با جماعت پڑھنا سنت ہے۔
فَصَلُّوْا یِھَا النَّاسِ الخ (لہٰذا ، اے لوگو ! تم اپنے گھروں میں نماز پڑھا کرو) میں امر استحبابی ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم وجوب اور لزوم کے طور پر نہیں دیا بلکہ مقصد یہ ہے کہ فرض نماز کے علاوہ دیگر سنن و نوافل گھروں میں پڑھنا بہتر اور مناسب ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عام نگاہوں سے بچ کر گھروں میں سنت و نفل نماز پڑھنے میں ریاء و نمائش کا کوئی ادنیٰ ساجذبہ بھی ظاہر نہیں ہوتا جو ظاہر ہے کہ عبادت کے سلسلے میں انتہائی مستحسن اور مطلوب ہے۔
فَاِنَّ اَفْضَلَ الصَّلٰوۃِ الخ ( انسان کی بہترین نماز وہی ہے جسے اس نے اپنے گھر میں پڑھا ہو) یہ حکم تمام سنن و نوافل نمازوں کے بارے میں ہے کہ کوئی بھی سنت یا نفل نماز ہو سب سے بہتر وہی نماز ہے جسے نمازی نے عام نگاہوں سے بچ کر اپنے گھر میں پڑھا ہو مگر وہ نوافل اس حکم میں شامل نہیں ہیں جو شعار اسلام میں سے ہیں مثلاً نماز کسوف، نماز استسقاء اور نماز عیدین کیونکہ ان نمازوں کو مسجد میں ہی پڑھنا افضل ہے۔
نیز مسافروں کے لئے کعبہ اور مسجد نبوی بھی ان احکام میں شامل نہیں ہیں یعنی اگر کسی خوش نصیب کو کعبۃ اللہ اور مسجد نبوی کی زیارت کا شرف حاصل ہو اور وہ مسافر ہو تو اس کے لئے افضل یہی ہے کہ وہ فرض نمازوں کے ساتھ سنن و نوافل بھی مسجد حرام یا مسجد نبوی میں ہی پڑھے کیونکہ مسافروں کو یہ موقعہ کبھی کبھی نصیب ہوتا ہے کہ وہ مسجد حرام اور مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کی سعادت حاصل کر سکیں اس لئے مسافر اس موقعہ کو غنیمت جانے اور زیادہ سے زیادہ نمازیں مسجد حرام اور مسجد نبوی میں پڑھے۔
اور یہ (یعنی مسجد حرام اور مسجد نبوی کو اس حکم سے مستثنیٰ قرار دینا) اس بات پر قیاس کیا جاتا ہے کہ مشائخ نے فرمایا ہے کہ مسافروں کے لئے کعبۃ اللہ کا طواف نفل نماز پڑھنے سے افضل ہے۔ وا اللہ اعلم

یہ حدیث شیئر کریں