عذاب قبر کے ثبوت کا بیان
راوی:
وَعَنْ زَیدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ قَالَ بَےْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فِیْ حَآئِطٍ لِّبَنِیْ النَّجَّارِ عَلٰی بَغْلَۃٍ لَّہُ وَنَحْنُ مَعَہُ اِذْا حَادَتْ بِہٖ فَکَادَتْ تُّلْقِےْہِ وَاِذَ اَقْبُرٌ سِتَّۃٌ اَوْ خَمْسَۃٌ فَقَالَ مَنْ ےَّعْرِفُ اَصْحَابَ ھٰذِہِ الْاَقبُرِ قَالَ رَجُلٌ اَنَا قَالَ فَمَتٰی مَاتُوْا قَالَ فِی الشِّرْکِ فَقَالَ اِنَّ ھٰذِہِ الْاُمَّۃَ تُبْتَلٰی فِیْ قُبُوْرِھَا فَلَوْلَا اَنْ لَّا تَدَافَنُوْا لَدَعَوْتُ اللّٰہَ اَنْ ےُّسْمِعَکُمْ مِّنْ عَذَابِ الْقَبْرِ الَّذِیْ اَسْمَعُ مِنْہُ ثُمَّ اَقْبَلَ عَلَےْنَا بِوَجْھِِہٖ فَقَالَ تَعَوَّذُوْا بِاللّٰہِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ قَالُوْا نَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ قَالَ تَعَوَّذُوْا بِاللّٰہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ قَالُوْا نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ قَالَ تَعَوَّذُوْا بِاللّٰہِ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَہَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ قَالُوْا نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ قَالُوْا نَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الْفِتَنِ مَا ظَہَرَ مِنْھَا وَمَابَطَنَ قَالَ تَعَوَّذُوْا بِاللّٰہِ مِنْ فِتْنَۃِ الدَّجَّالِ قَالُوْا نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ فِتْنَۃِ الدَّجَّالِ ۔(صحیح مسلم)
" اور حضرت زید بن ثابت ( زید بن ثابت انصاری خزرجی ہیں آپ کاتب وحی ہیں۔ آپ کی وفات ٤٢ھ یا ٤٥ میں ہوئی۔) راوی ہیں کہ (ایک روز) جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی نجار کے باغ میں اپنے خچر پر سوار تھے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے کہ اچانک خچر بدک گیا اور قریب تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گرادے، ناگہاں پانچ چھ قبریں نظر آئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان قبر والوں کو کوئی جانتا ہے؟ ایک آدمی نے کہا، " میں جانتا ہوں!" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ یہ کب مرے ہیں؟ (یعنی حالت کفر میں مرے ہیں یا ایمان کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں) اس آدمی نے عرض کیا۔ یہ تو شرک کی حالت میں مرے ہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ امت اپنی قبروں میں آزمائی جاتی ہے (یعنی ان لوگوں پر ان کی قبروں میں عذاب ہو رہا ہے) اگر مجھ کو یہ خوف نہ ہوتا کہ تم (مردوں کو) دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں ضرور اللہ سے یہ دعا کرتا کہ وہ تم کو بھی عذاب قبر (کی اس آواز ) کو سنا دے جس کو میں سن رہا ہوں، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قبر کے عذاب سے خداہ کی پناہ مانگو۔ صحابہ نے عرض کیا
ہم آگ کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو۔ صحابہ نے عرض کیا۔ عذاب قبر سے ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ظاہری اور باطنی فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگو۔ صحابہ نے عرض کیا۔ ہم دجال کے فتنہ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے
ہیں۔" (صحیح مسلم)
تشریح
نبی کا احساس و شعور اور اس کی قوت ادراک دنیا کے تمام لوگوں سے بہت زیادہ قوی ہوتی ہے چونکہ اس کے احساس ظاہری و باطنی میں وہ قدرتی طاقت ہوتی ہے جس کی بناء پر وہ اس دنیا سے بھی آگے عالم غیب کی چیزوں کا ادراک کر لیتا ہے اس لئے اس کی ظاہری آنکھوں کے ساتھ ساتھ باطنی آنکھیں بھی اتنی طاقتور ہوتی ہیں کہ وہ غیب کی ان چیزوں کو بھی دیکھ لیتا ہے جسے اللہ تعالیٰ اسے دکھانا چاہتا ہے۔
چانچہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کہیں سفر میں جا رہے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک قبرستان پر ہوا تو وہاں آپ کی چشم بصیرت نے ادراک کر لیا کہ قبروں میں مردوں پر عذاب ہو رہا ہے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو تلقین کی کہ وہ عذاب قبر سے پناہ مانگتے رہیں عذاب قبر کی شدت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ اگر تمہاری آنکھیں اس کا مشاہدہ کر لیں اور تمہارے کان اس کو سن لیں تو تم اپنی عقل و دماغ سے ہاتھ دھو بیٹھو اور تم اس کی شدت و سختی کا محض احساس ہی کر کے بے ہوش ہو جاؤ گے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم اس خوف و ہر اس کی وجہ سے مردوں کو دفن کرنا بھی چھوڑ دو گے اگر مجھے اس کا خدشہ نہ ہوتا تو میں یقینا تمہیں اس عذاب کا مشاہدہ بھی کر ادیتا اور تمہیں سنوا بھی دتیا۔