مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ وتر کا بیان ۔ حدیث 1238

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حضرت ابوہریرہ کو تین باتوں کی وصیت

راوی:

وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ ص قَالَ اَوْصَانِیْ خَلِےْلِیْ بِثَلٰثٍ صِےَامِ ثَلٰثَۃِ اَےَّامٍ مِّنْ کُلِّ شَھْرٍ وَرَکْعَتَیِ الْضُّحٰی وَاَنْ اُوْتِرَ قَبْلَ اَنْ اَنَامَ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)

" اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے دوست یعنی سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تین باتوں کی وصیت فرمائی تھی ایک تو ہر مہینہ میں تین روزے رکھنے کی دوسری دو رکعت ضحی کی نماز پڑھنے کی اور تیسری یہ کہ سونے سے پہلے وتر پڑھ لوں۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم )

تشریح
" ہر مہینے کے تین روزے" کے تعین میں مختلف اقوال ہیں چنانچہ بعض علماء نے کہا ہے کہ مہینے کے تین روزوں سے ایام بیض یعنی ہر مہینے کی تیرھویں ، چودھویں اور پندرھویں تاریخ کے روزے مراد ہیں ۔ بعض حضرات کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ ایک روزہ ابتدائی مہینے میں ایک روزہ درمیان میں اور ایک روزہ آخر مہینہ میں رکھا جائے۔
بعض علماء کا کہنا ہے کہ یہ مطلق ہے یعنی اختیار ہے کہ پورے مہینے میں جب چاہے تین روزے رکھے لے۔
" ضحی کی دو رکعتوں سے " نماز اشراق یا نماز چاشت مراد ہے جو آفتاب بلند ہونے کے بعد پڑھی جاتی ہے ان نمازوں کا ادنی درجہ دو رکعت ہے مگر اشراق کی نماز کا اکثر درجہ چھ رکعت اور چاشت کی نماز کا بارہ رکعت ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اول شب میں وتر پڑھ لینے کے لئے اس وجہ سے فرمایا کہ وہ رات کے ابتدائی حصے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو یاد کرنے اور ان کی تکرار میں مشغول رہتے تھے جس کا سلسلہ رات گئے تک جاری رہتا تھا اس وجہ سے ان کے لئے آخر رات میں اٹھنا بہت مشکل تھا چنانچہ اسی مشغولیت علم کی وجہ سے انہیں اشراق یا چاشت کی بھی دو ہی رکعتیں پڑھنے کے لئے فرمایا۔ لہٰذا اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ علم دین کے حصول اور اس کی ترویج و اشاعت میں رہنا نفل عبادت کی مشغولیت سے بہتر ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں