نماز وتر کی رکعتوں کا مسئلہ
راوی:
وَعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَلْوِتْرُ رَکْعَۃٌ مِّنْ اٰخِرِ اللَّےْلِ۔(صحیح مسلم)
" اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " آخر رات کو وتر (پڑھنا افضل ہے اور اس کی ایک رکعت ہے )۔" صحیح مسلم
تشریح
الوتر رکعۃ کا مطلب یہ ہے کہ " پہلے پڑھی گئی دو رکعتوں کے ساتھ ملی ہوئی وتر کی ایک رکعت ہے " گویا کہ اس کا مفہوم یہ ہوا کہ وتر سے ہٹ کر تاویل کا راستہ اختیار کرتے ہوئے یہ معنی اس لئے بیان کئے گئے ہیں تاکہ ان حدیث میں جن سے وتر کے لئے تین رکعتیں پڑھنا ثابت ہے اور ان احادیث میں جن سے وتر کی ایک رکعت کا اثبات ہوتا ہے تطبیق پیدا ہو جائے اور احادیث کے حقیقی معنی و مفہوم میں کوئی تعارض پیدا نہ ہو۔
وتر کے پڑھنے کا مختار اور افضل وقت آخری رات ہے جب کہ تہجد وغیرہ کی نماز پڑھ لی جائے لیکن عام طور سے چونکہ لوگ رات کو تہجد کی نماز کے لئے نہیں اٹھتے اس لئے عشاء کی نماز کے فورًا بعد ہی وتر بھی پڑھ لئے جاتے ہیں ۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے لکھا ہے کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ وتر ایک ہی رکعت ہے۔ جن احادیث سے وتر کی تین رکعتیں پڑھنا ثابت ہے وہ آگے ذکر کر جائیں گی۔