مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان ۔ حدیث 1220

اونگھنے کی حالت میں نماز نہیں پڑھنی چاہیے

راوی:

وَعَنْ عَائِشَۃَرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلماِذَا نَعَسَ اَحَدُکُمْ وَھُوَ ےُصَلِّیْ فَلْےَرْقُدْ حَتّٰی ےَذْھَبَ عَنْہُ النَّوْمُ فَاِنَّ اَحَدَکُمْ اِذَا صَلّٰی وَھُوَ نَاعِسٌ لَّا ےَدْرِیْ لَعَلَّہُ ےَسْتَغْفِرُ فَےَسُبُّ نَفْسَہُ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)۔

" اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جب تم میں سے کوئی نماز پڑھنے کی حالت میں اونگھنے لگے تو اسے چاہیے کہ سو رہے یہاں تک کہ نیند جاتی رہے کیونکہ جب تم میں سے کوئی اونگھتا ہوا نماز پڑھتا ہے تو نیند کے غلبے کی وجہ سے اسے یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے لہٰذا ہو سکتا ہے کہ وہ تو مغفرت کا طالب ہو مگر (اونگھنے کی وجہ سے) اپنے نفس کے لئے (اس کی زبان سے ) بد دعا نکل جائے۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم )

تشریح
مطلب یہ کہ نیند کے غلبے اور اونگھنے کی حالت میں نماز نہ پڑھی جائے کیونکہ ایسے وقت پر نہ تو دل و دماغ حاضر رہتے ہیں اور نہ زبان ہی قابو میں ہوتی ہے یہی وجہ سے کہ ایسی حالت میں انسان کہنا کچھ چاہتا ہے مثال کے طور پر اس کو یوں سمجھئے کہ ایک آدمی نماز پڑھ رہا ہے اس پر نیند کا غلبہ ہے اور وہ اونگھ رہا ہے جس کی وجہ سے اس کے دل و دماغ اور زبان پر غفلت و سستی کا قبضہ ہے اب وہ اس حالت میں کہنا چاہتا ہے
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ۔۔۔ ' اے اللہ میری مغفرت فرما۔"
مگر نیند کی غفلت اس کی زبان یہ الفاظ ادا کر رہی ہے۔
اَللّٰھُمَّ اعفِرْلی۔۔۔ " اے اللہ مجھے خاک آلود کر دے۔"
دیکھا آپ نے ؟ نیند کی غفلت سے صرف ایک نقطے کے فرق نے کیا گل کھلا دیا " کہاں تو اپنی مغفرت اور آخرت میں اپنی عزت و کامیابی کی دعا مانگنا چاہتا تھا اور کہاں اپنے نفس کے لئے بد دعا کے الفاظ نکال کر ذلت وخواری کا سامان کر بیٹھا، اسی لئے منع کیا جا رہا ہے کہ جب نیند کا غلبہ ہو اور اونگھ کا تسلط ہو تو ایسے وقت میں نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔

یہ حدیث شیئر کریں