اس وقت تک عبادت کرنی چاہے جب تک دل گلے
راوی:
وَعَنْ اَنَسٍ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لِےُصَلِّ اَحَدُکُمْ نَشَاطَہُ وَاِذَا فَتَرَ فَلْےَقْعُدْ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)
" اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " تمہیں چاہے کہ اسی وقت تک نماز پڑھو جب تک کہ خوش دلی رہے اور جب طبیعت سست ہو جائے تو بیٹھ جاؤ۔" (بخاری ومسلم)
تشریح
حدیث کا حاصل یہ ہے کہ آخرت کی راہ سعادت اور بھلائی اختیار کرنے والے کو چاہیے کہ عبادت میں اپنی بساط اور طاقت کے مطابق کوشش کرے طاعت کے معاملے میں میانہ روی اختیار کرے اور تنگ دلی و انقباض کے ساتھ عبادت کرنے سے احتراز کرے۔ عبادت اسی وقت تک کرے جب تک کہ بشاشت قلبی اور سکون و اطمینان حاصل رہے۔ جب طبیعت سست ہو جائے تو عبادت ترک کر دے ، اگر کوئی آدمی عبادت کرتے کرتے تھک جائے اور سست ہو جائے ، نیز عبادت چھوڑ کر اس خیال سے کسی امر مباح میں مشغول ہو جائے مثلاً سو جائے یا گفتگو وغیرہ میں لگ جائے تاکہ آئندہ عبادت کے لئے مزید بشاشت و خوشی اور اطمینان و سکون حاصل ہو سکے تو اس کی یہ مشغولیت عبادت و طاعت ہی میں شمار کی جاتی ہے ۔ اسی لئے فرمایا گیا ہے کہ " عالم کی نیند ( بھی) عبادت ہے"
کسالت و ملالت اور طبیعت کی تنگی کے وقت نفل اعمال کو ترک کر دینے کے سلسلے میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں ، چنانچہ ایسے موقعہ پر جبکہ طبیعت میں اضمحلال اور سستی پیدا ہو جائے نفل اعمال کو ترک کر دینے کی اجازت اس لئے دی گئی ہے کہ عمل کا نفس پر گراں ہونا آخر کار عمل کے بالکل چھوٹ جانے یا اس میں نقصان واقع ہو جانے کا سبب بن جاتا ہے۔
لیکن اتنی بات سمجھ لیجئے کہ نفس کو بہت زیادہ عبادت کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے تاکہ طبیعت عبادت کی مشقت و ریاضت کی خوگر ہو جائے، کاہل طبیعت ، آرام طلب اور سست مزاج لوگوں کی طرح ہو جانا چاہیے جو کہ مختصر سی عبادت اور تھوڑے سے عمل میں بھی تھک جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ عبادت اور ریاضت و مجاہدہ کو ادھورا چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں لیکن بہت زیادہ عبادت کرنے کی اگر عادت پڑجاتی ہے تو زیادہ سے زیادہ عبادت طبیعت پر گراں نہیں ہوتی، چنانچہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جن لوگوں کو پہلے دو رکعت نماز پڑھنی اور قرآن کے ایک پارے کی تلاوت بھی گراں گذرتی تھی اور اس کی وجہ سے ان کی طبیعت میں سستی و اضمحلال پیدا ہو جاتا تھا انہوں نے ہی جب زیادہ عبادات اور ریاضت و مجاہدہ کی عادت پیدا کرلی اور اپنے نفس اور اپنی طبیعت کو راہ الٰہی کی سعادتوں کے حصول کی خاطرمشقت ومحنت کا عادی بنا لیا تو انہیں سو رکعت نماز پڑھنی اور قرآن کے دس پاروں کی تلاوت بھی آسان معلوم ہونے لگی۔