مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان ۔ حدیث 1214

رات کی عبادت کے سلسلے میں حضرت عمر کا معمول

راوی:

وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ اَنَّ اَبَاہُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ کَانَ یُصَلِّی مِنَ اللَّیْلِ مَا شَآءَ اﷲُ حَتّٰی اِذَاکَانَ اَخِرِ اللَّیْلِ اَیْقَظَ اَھْلَہ، لِلصَّلَاۃِ یَقُوْلُ لَھُمُ الصَّلَاۃُ ثُمَّ یَتْلُوْ ھٰذِہٖ الْاٰیَۃَ وَامُرْ اَھْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْھَا لَا نَسْأَلُکَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُکَ وَ الْعَاقِبَۃُ لِلتَّقْوٰی (رواہ موطا مالک)

" اور حضرت عبداللہ ابن عمر سے مروی ہے کہ ان کے پدر بزرگوار حضرت عمر بن خطاب رات کو جس قدر اللہ چاہتا نماز پڑھتے رہتے اور رات جب آخر ہوتی تو اپنی زوجہ محترمہ کو نماز پڑھنے کے لئے اٹھاتے اور فرماتے کہ " نماز پڑھو ، پھر یہ آیت پڑھتے ( وَاْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْ َ لُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوٰى ١٣٢ ) 20۔طہ : 132) (اور اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے متعلیقن کو بھی نماز کا حکم کرتے رہیے اور خود بھی اس (کی مشقتوں) پر صبر کیجئے ہم آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) سے رزق نہیں مانگتے ، رزق ہم ہی آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) کو دیتے ہیں اور آخرت کی بھلائی تو پرہیز گاروں ہی کے لئے ہے۔" (مالک)

تشریح
آیت کا مطلب یہ ہے کہ اپنے متعلیقن اور اہل خانہ کو نماز پڑھنے کی ہدایت کرتے رہیے اور خود بھی نماز پڑھنے کی مشقتوں محنتوں پر صبر کیجئے اور اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلقین کو بھی جو محنت و مشقت اٹھانی پڑے اسے بھی برداشت کیجئے اور ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت وبندگی میں مشغول رہیے ، اللہ تعالیٰ کی ذات پر تو کل کیجئے ، اسی سے ظاہری و باطنی غناء کے لئے مدد کے طلبگار رہیے اپنے رزق اور معاش کی فکر نہ کیجئے اور دیکھئے ہم آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) سے رزق نہیں مانگتے کہ اپنے رزق اور اسباب معیشت کے حصول اور دوسروں کے لئے رزق کی ذمہ داری آپ کو جدوجہد اور محنت و سعی کے ایسے بندھنوں میں باندھ دے جو آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے لئے ادائیگی نماز میں رکاوٹ بن جائے جس طرح ہم دوسروں کو رزق دیتے ہیں اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم ( صلی اللہ علیہ وسلم) کو بھی رزق بخشتے ہیں، آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) کا کام تو صرف یہ ہے کہ دنیا اور دنیا کے امور سے منہ موڑ کر اپنے قلب و دماغ کو صرف آخرت کی بھلائی اور اپنے متعلقین کی اصلاح میں مصروف رکھیے اور یہ جان لیجئے کہ عاقبت محمودہ یعنی دنیا اور آخرت دونوں جگہ انجام کار بخیر ہونا صرف متقیوں اور اللہ کے نیک بندوں ہی کے لئے ہے

یہ حدیث شیئر کریں