رات کو حضرت داؤد علیہ السلام کی عبادت اور ساعت قبولیت
راوی:
وَعَنْ عُثْمَانَ بْنِ اَبِی الْعَاصِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ کَانَ لِدَاؤدَ عَلَیْہِ السَّلامُ مِنَ اللَّیْلِ سَاعَۃٌ یُوْقِظُ فِیْھَا اَھْلَہ، یَقُوْلُ یَا اٰلَ دَاؤدَ قَوْمُوْا فَصَلُّوْ فَاِنَّ ھٰذِہٖ سَاعَۃٌ یَسْتَجِیْبُ اﷲُ عَزَّوَ جَلَّ فِیْھَا الدُّعَآءَ اِلَّالِسَاحِرٍ اَوْعَشَّارٍ۔ (رواہ احمد بن حنبل)
" اور حضرت عثمان بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ " حضرت داؤد کے لئے رات ( کے آخری نصف حصہ میں) ایک وقت مقرر تھا جس میں وہ اپنے اہل خانہ کو جگاتے اور فرماتے کہ " آل داؤد ! اٹھو اور نماز پڑھو کیونکہ یہ ایسا وقت ہے جس میں اللہ بزرگ و برتر دعا کو قبول فرماتا ہے سوائے جادوگر اور عشار (کی دعا) کے (یعنی ان دونوں کی دعا اس وقت بھی قبول نہیں ہوتی ۔)" (مسند احمد بن حنبل )
تشریح
عشار سے چوکیدار قسم کے وہ راہزن مراد ہیں جو راستوں میں بیٹھے رہتے ہیں اور لوگوں کے مال ازراہ ظلم لے لیتے ہیں اس سے وہ عمال بھی مراد لئے جا سکتے ہیں جو محصول وغیرہ کی وصولیابی کے لئے مقرر ہوتے ہیں اور ناجائز و غلط طریقے پر لوگوں سے ان کے مال واسباب غصب کرتے ہیں۔
بہر حال حاصل یہ ہے کہ اس مقدس ساعت اور رحمت الٰہی کے عام فیضان کے اس بابرکت موقع پر بھی ساحر یعنی جادوگر اور عشار کی دعا قبول نہیں ہوتی کیونکہ ان لوگوں سے اللہ کی مخلوق کو بہت تکلیف پہنچتی ہے اور پروردگار عالم ان لوگوں کے ساتھ کبھی بھی بہتر معاملہ نہیں فرماتا جو اس کی مخلوق کے لئے ایذارسانی اور تکلیف و مصیبت کا سبب بنتے ہیں ، وجہ سے بعض عارفین کا یہ عارفانہ ارشاد ہے کہ " کمال عبودیت یعنی پوری طرح اللہ کا بندہ ہو جانا چاہیے کہ حکم الٰہی کی تعظیم کی جائے اور اللہ کی مخلوق کے ساتھ شفقت و مہربانی کا برتاؤ کیا جائے۔