نماز تہجد کو ترک کرنے کی ممانعت
راوی:
وَعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ص قَالَ قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےَا عَبْدَاللّٰہِ لَا تَکُنْ مِّثْلَ فُلاَنٍ کَانَ ےَقُوْمُ مِنَ اللَّےْلِ فَتَرَکَ قِےَامَ اللَّےْلِ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)
" حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک روز ) مجھ سے فرمایا کہ " عبداللہ (دیکھو) فلاں آدمی کی طرح نہ ہو جانا کہ وہ رات کو قیام کرتا تھا (یعنی تہجد کی نماز پڑھتا تھا) پھر بعد میں رات کے قیام کو اس نے چھوڑ دیا۔" (صحیح البخاری و صحیح مسلم )
تشریح
کوئی صحابی ہوں گے جو پہلے تو تہجد کی نماز پڑھا کرتے تھے مگر پھر بعد میں بغیر کسی عذر کے محض نفس کی خواہش میں مبتلا ہو کر اس عظیم سعادت سے کنارہ کشی کر بیٹھے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمرو کو متنبہ فرمایا کہ دیکھو کہیں تم بھی انہیں کی طرح نماز تہجد کو چھوڑ کر فریب نفس میں مبتلا نہ ہو جانا کیونکہ ایسے لوگ جو نیک عمل کی عادت اور اپنے معمولات دینی کو بغیر کسی عذر و مجبوری کے چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور ان لوگوں کے سلسلے میں داخل ہو جاتے ہیں جن کے بارے میں صحیح فیصلہ یہی ہے کہ تَارِکُ الْوِرْدِ مَلْعُونٌ (یعنی معمولات دینی کو چھوڑنے والا ملعون ہے۔)
گویا اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ عبادت الٰہی کو ترک کر دینا اور عادت یعنی نفسانیت کے غلط راستے کی طرف لوٹنا درحقیقت سعادت مندی اور صلاح و فلاح میں زیادتی کے بعد نقصان کا واقع ہو جانا ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بایں طور پناہ مانگی ہے کہ نعوذ باللہ من الحور بعد الکور (یعنی ہم زیادتی کے بعد نقصان کے واقع ہو جانے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں۔
لہٰذا راہ طریق و شریعت کے سالک کو چاہیے کہ نہ صرف یہ کہ وہ اپنی عبادت الٰہی اور ذکر اللہ کی عادت کو ترک نہ کرے اور اس میں کمی نہ اختیار کرے بلکہ ان میں زیادتی ہی کا طالب رہے کیونکہ یہ کہا گیا ہے " جو آدمی زیادتی کا طالب نہیں ہے وہ نقصان کے راستے پر ہے۔"