نماز تہجد پڑھنے والوں کی خوش بختی
راوی:
وَعَنْ عَمْرِوبْنِ عَنْبَسَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَقْرَبُ مَا یَکُوْنُ الرَّبُّ مِنَ الْعَبْدِ فِیْ جَوْفِ اللَّیْلِ الْاٰخِرِ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَکُوْنُ مِمَّنْ یَّذْکُرُ اﷲَ فِیْ تِلْکَ السَّاعَۃِ فَکُنْ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَقَالَ ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ غَرِیْبٌ اِسْنَادًا۔
" اور حضرت عمرو بن عنبسہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " پروردگار اپنے بندے سے سب سے زیادہ قریب آخری شب میں ہوتا ہے لہٰذا اگر تم بھی اس وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والوں میں ہو سکتے ہو تو ضرور ہو یعنی اس بات کی کوشش کرو تم بھی ان خوش نصیب مسلمانوں میں شمار کئے جاؤ جو اس وقت اپنے پروردگار کے ذکر میں مشغول ہوتے ہیں اور سعادت میں خوش بختی کے خزانے اپنے دامن میں سمیٹ کر پروردگار کی رضا و خوشنودی کو اپنے قریب تر پاتے ہیں) امام ترمذی نے یہ روایت نقل کی ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور سند کی وجہ سے غریب ہے۔"
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رات کا آخر حصہ بایں طور افضل و اشرف ہے کہ وہ اپنے دامن میں پروردگار کی رحمتوں اور اس کی عنایتوں کے خزانے سمیٹے ہوئے ہوتا ہے ، اب یہ قسمت اور مقدروالوں کی بات ہے کہ کون اس خزانے سے مستفید ہوتا ہے اور کون محروم رہ جاتا ہے ۔
چنانچہ جن کی طبیعت سعادت مند ہوتی ہے وہ رات کے اس حصے میں اٹھ کر رحمت الٰہی کے خزانے سے اپنے دامن کو بھرتے ہیں اور جو حرماں نصیب ہوتے ہیں وہ شیطان کی لوریاں کھا کھا کر نہ صرف اپنے دل و دماغ اور جسم کو نیند کے حوالے کئے ہوتے ہیں بلکہ ان کی سعادت اور ان کی خوش بختی بھی غفلت و سستی کی نذر ہو جاتی ہے۔
بہر حال پروردگار کا اپنے بندے سے قریب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی رضا و خوشنودی بندے سے قریب تر ہوتی ہے اور اس کی رحمتوں کا سایہ بندے کے اوپر ہوتا ہے۔
آخری نصف رات سے رات کا وہ حصہ مراد ہے جس کی ابتداء ثلث آخر (یعنی آخری تہائی) سے ہوتی ہے اور وہی وقت تہجد کی نماز کے لئے اٹھنے کا ہوتا ہے۔
حضرت عمرو بن عنبسہ جنہیں لسان نبوت سے حدیث میں مذکورہ سعادت حاصل کرنے کے لئے فرمایا جا رہا ہے حضرت حق جل مجدہ کی درگاہ کبریائی کے ایک مجذوب اور دربا رسالت ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے ایک مقرب اور زی شان خادم تھے ان کی بہت زیادہ عظمت اور فضیلت ہے۔
ابتداء ظہور نبوت میں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں کفر و شرک سے اکڑی ہوئی ہوئی گردنوں کو خدائے واحد کے حضور میں جھکانے کی سعی میں مصروف تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ کی ابتداء ہو چکی تھی تو حضرت عمرو بن عنبسہ اپنے وطن میں تھے یکایک ان کے دل میں نور تو حید ضوفشاں ہوا اور شرک و بت پرستی کی کراہیت و نفرت نے بے چین کر دیا، جب ہی سنا کہ ایک آدمی مکہ میں پیدا ہوا ہے جو لوگوں کو تو حید کی طرف بلاتا ہے اور بتوں کی عبادت سے منع کرتا ہے، یہ سنتے ہی قلب مضطر نے فوراً ہی مکہ پہنچنے پر مجبور کر دیا ، انہوں نے مکہ پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دریافت کیا ، رسول اللہ (فداہ روحی) اس زمانے میں کفار کی شدید مخالفت اور دشمنان دین کی بے پناہ سختیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنے دشمنوں کی نظروں سے پوشیدہ ہو کر اللہ کے دین کی تبلیغ اور اس کی عبادت میں مصروف تھے، حضرت عمرو بن عنبسہ نے لوگوں سے پوچھا کہ " تم میں کون آدمی پیدا ہوا ہے جو تمہاری روش اور تمہارے راستے سے ہٹ کر دوسرے دین کی طرف دنیا کو بلاتا ہے " ؟ لوگوں نے کہا ہے کہ " ہاں ایک دیوانہ ہے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عقل و دانش پر دونوں جہان قربان) جس نے اپنے باپ دادا کا طریقہ اور راستہ چھوڑ دیا ہے اور ایک نئی رسم نکالی ہے۔
دیوانہ کنی ہر دوجہانش بخشی
دیوانہ تو ہر دوجہاں راچہ کند
انہوں نے پوچھا کہ " اچھا وہ کہاں ملیں گے " ؟ لوگوں نے کہا کہ " وہ آدمی آدھی رات کو باہر نکالتا ہے اور اس خانہ کعبہ کے اردگرد گھومتا ہے۔"
حضرت عمرو بن عنبسہ آدھی رات کے وقت حرم شریف میں آئے اور کعبۃ اللہ کے پردہ مبارک میں چھپ کر کھڑے ہوئے اچانک دیکھا کہ ایک آدمی ظلمتوں کے پردوں کو چیرتا ہوا نور کی ایک دنیا اپنے جلوؤں میں لئے نمودار ہوا۔ اس آدمی کی سراپا کشش، آدمییت اور نورانی چہرے و جسم کا یہ عالم کہ مہر و ماہ اس کے سامنے شرمندہ اور دنیا کے تمام لوگ اس کے پاک آستانے کی خاک ( صلی اللہ علیہ وسلم) عمرو فوراً پردہ سے نکل کر باہر آئے اور نمودار ہونے والے آدمی کو سلام کیا اور پوچھا کہ " آپ کون ہیں اور آپ کا دین کیا ہے۔؟" انہوں نے فرمایا کہ " میں اللہ کا رسول ہوں ( صلی اللہ علیہ وسلم) اور میرا دین لا الہ الا اللہ ہے " یہ خوشی سے جھوم اٹھے اور فورا بولے کہ " میں بھی اس دین کو پسند کرتا ہوں" چنانچہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جبھی ایمان لائے ، اس طرح حضرت عمرو بن عنبسہ تیسرے یا چوتھے مسلمان ہیں یعنی ان سے پہلے صرف دو یا تین آدمی ہی اسلام کی دولت سے مشرف ہو چکے تھے۔
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رخصت کیا اور فرمایا کہ میرے " پروردگار نے مجھ سے ایک وعدہ کیا ہے۔ جب وہ وعدہ پورا ہوگا تو میرے پاس آنا " چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو عمرو بن عنبسہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ پہنچ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہنے کی سعادت حاصل کی اور نگاہ نبوت کی کرشمہ سازی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو درجہء کمال پر پہنچا دیا۔