مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ نماز کا بیان ۔ حدیث 1175

نماز تہجد میں زیادہ قیام کی فضیلت

راوی:

وَعَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ عَمَرِو بْنِ الَعَاصِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ قَامَ بِعَشْرِ اٰیَاتِ لَّمْ یُکْتَبْ مِنَ الْغَافِلِیْنَ وَمَنْ قَامَ بِمِائَۃِ اٰیَۃٍ کُتِبَ مِنَ الْقَانِتِیْنَ وَمَنْ قَامَ بِاَلْفِ اٰیَۃٍ کُتِبَ مِنَ الْمُقَنْطِرِیْنَ۔ (رواہ ابوداؤد)

" اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو آدمی دس آیتوں کے (پڑھنے کے) ساتھ قیام کرے تو وہ غافلین میں شمار نہیں کیا جاتا (یعنی اس کا نام صحیفہ غافلین میں نہیں لکھا جاتا ) اور جو آدمی سو آیتوں کے (پڑھنے کے) ساتھ قیام کرے تو اس کا نام فرما نبرداروں میں لکھا جاتا ہے اور جو آدمی ہزار آیتوں کے (پڑھنے کے) ساتھ قیام کرے تو اس کا نام بہت زیادہ ثواب پانے والوں میں لکھا جاتا ہے۔" (ابوداؤد)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ جو آدمی تہجد کی نماز میں دس ، سو یا ہزار آیتوں کی قرأت ترتیل اور اطیمنان کے ساتھ کرے تو اسے مذکورہ بالا ثواب اور سعادت کی فضیلت حاصل ہوگی اور اگر کوئی آدمی اپنی نماز میں دس آیتیں پڑھے گا تو فضیلت و ثواب کے اعتبار سے وہ آدمی اس سے کمتر ہوگا جو سو آیتیں اپنی نماز میں پڑھے گا ، اسی طرح جو آدمی اپنی نماز سو آیات میں پڑھے گا تو وہ فضیلت و سعادت کے اعتبار سے اس آدمی سے کم تر ہوگا جو اپنی نماز میں ایک ہزار آیتوں کی قرأت کرے گا۔
اس موقع پر دو سوال پیدا ہوتے ہیں، اوّل تو یہ کہ آیتوں کی مذکورہ تعداد ایک رکعت میں پڑھنے کا اعتبار ہوگا یا ایک سے زائد رکعت میں یہ تعداد پڑھی جائے۔
دوم یہ کہ تعداد سورت فاتحہ کی آیتوں کو شامل ہے یا اس کے علاوہ ہے۔
پہلے سوال کے متعلق علامہ ابن حجر فرماتے ہیں کہ آیتوں کی مذکورہ تعداد دو یا دو سے زیادہ رکعتوں میں پڑھی جائے۔
دوسرے سوال کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ حدیث کے ظاہری الفاظ تو یہی مراد بتاتے ہیں کہ سورت فاتحہ کے علاوہ دس آیتیں ہوں لیکن صحیح اور ظاہر یہ ہے کہ حدیث میں مذکورہ ثواب اس شکل میں بھی حاصل ہوتا ہے کہ مذکورہ تعداد سورت فاتحہ کو شامل کر کے پڑھی جائے بایں طور کہ سات آیتیں تو سورت فاتحہ کی ہو جائیں گی اور تین آیتیں مزید کہ جو نماز کی قرأت کا ادنی درجہ ہے۔
قانتین کے معنی ہیں اطاعت پر مواظبت اور مداومت کرنے والے یا عبادت الٰہی میں قیام (یعنی کھڑے ہونے) کو طویل کرنے والے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ نماز میں سو آیتیں پڑھتے ہیں ان کا نام اطاعت الٰہی پر مواظبت و مداومت کرنے والوں میں لکھا جاتا ہے۔ یا عبادت اللہ وندی میں قیام کو طویل کرنے والوں کی جماعت میں لکھا جاتا ہے جو انتہائی سعادت اور خوش بختی کی بات ہے۔
علامہ طیبی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے الفاظ سے جو اس حدیث کے فائدے میں ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث مطلق ہے ، دن یا رات کے ساتھ مقید نہیں ہے یعنی خواہ کوئی سی بھی نماز ہو، دن کی ہو یا رات کی ہو جس نماز میں بھی آیتوں کی مذکورہ تعداد پڑھی جائے گی ، ثواب حاصل ہوگا، تاہم علامہ بغوی نے اس حدیث کو کامل ترین موقعہ پر یعنی باب " صلاۃ اللیل" میں نقل کر کے اس طرف اشارہ کر دیا ہے کہ رات کو (یعنی تہجد کی نماز میں) مذکورہ تعداد میں جو آیتیں پڑھی جائیں گی تو اس کا ثواب بہت زیادہ حاصل ہوگا۔
بعض علماء نے لکھا ہے کہ " قیام کرنا " اس بات سے کنایہ ہے کہ مذکورہ تعداد میں آیتیں یاد کی جائیں اور انہیں ہر وقت پڑھا جائے نیز یہ کہ ان کے معنی و مقاصد میں غور و فکر اور ان پر عمل کیا جائے۔ وا اللہ اعلم۔

یہ حدیث شیئر کریں