وتر کی تین رکعتیں ہیں
راوی:
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاس ص اَنَّہُ رَقَدَ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَاسْتَےْقَظَ فَتَسَوَّکَ وَتَوَضَّاَ وَھُوَ ےَقُوْلُ اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ حَتّٰی خَتَمَ السُّوْرَۃَ ثُمَّ قَام َفَصَلّٰی رَکْعَتَےْنِ اَطَالَ فِےْھِمَا الْقِےَامَ وَالرُّکُوْعَ وَالسُّجُوْدَ ثُمَّ انْصَرَفَ فَنَامَ حَتّٰی نَفَخَ ثُمَّ فَعَلَ ذٰلِکَ ثَلٰثَ مَرَّاتٍ سِتَّ رَکَعَاتٍ کُلَّ ذَالِکَ ےَسْتَاکُ وَےَتَوضَّاُ وَےَقْرَاُ ھٰؤُلَآءِ الْاٰےَاتِ ثُمَّ اَوْتَرَ بِثَلََا ثٍ۔ (صحیح مسلم)
" اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے بارے میں منقول ہے کہ وہ (ایک رات) سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں سوئے چنانچہ ( انہوں نے بیان کیا کہ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو بیدار ہوئے، مسواک کی اور وضو کیا پھر یہ آیت پڑھی (اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ ١٩٠ ) 3۔ ال عمرن : 190تا200) آخر سورت تک، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور دو رکعت نماز پڑھی جس میں قیام ، رکوع اور سجود کو طویل کیا پھر (دو رکعت نماز سے ) فارغ ہو کر سو گئے اور خر اٹے لینے لگے، تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کیا (یعنی دو رکعت مذکورہ طریقہ سے پڑھ کر لیٹ جاتے پھر اٹھ کر دو رکعت پڑھتے اور پھر لیٹ جاتے) اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین مرتبہ میں چھ رکعتیں پڑھیں اور تینوں مرتبہ میں سے ہر بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک بھی کرتے وضو بھی کرتے اور آیتیں بھی پڑھتے تھے ۔ پھر آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کی تین رکعتیں پڑھیں۔" (صحیح مسلم)
تشریح
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ وتر کی تین ہی رکعتیں ہیں ، چنانچہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ گو حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک وتر کی ایک ہی رکعت ہو سکتی ہے لیکن اس حد تک تو وہ بھی حنفیہ ہی کے ساتھ ہیں کہ ان کے نزدیک بھی وتر کے لئے صرف ایک رکعت پڑھنا مکروہ ہے۔