تہجد کی ابتدائی دو رکعتوں کی کیفیت کیا ہوتی تھی؟
راوی:
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍص قَالَ بِتُّ عِنْدَ خَالَتِیْ مَےْمُوْنَۃَ لَےْلَۃً وَالنَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم عِنْدَھَا فَتَحَدَّثَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَعَ اَھْلِہٖ سَاعَۃً ثُمَّ رَقَدَ فَلَمَّا کَانَ ثُلُثُ الَّےْلِ الْاٰخِرِ اَوْ بَعْضُہُ قَعَدَ فَنَظَرَ اِلَی السَّمَآءِ فَقَرَاَ اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّےْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰےٰتٍ لِّاُوْلِی الْاَلْبَابِ حَتّٰی خَتَمَ السُّوْرَۃَ ثُمَّ قَامَ اِلَی الْقِرْبَۃَ فَاَطْلَقَ شِنَاقَھَا ثُمَّ صَبَّ فِی الْجَفْنَۃِ ثُمَّ تَوَضَّأَ وُضُوْئً حَسَنًا بَےْنَ الْوُضُوْئَےْنِ لَمْ ےُکْثِرْ وَقَدْ اَبْلَغَ فَقَامَ فَصَلّٰی فَقُمْتُ وَتَوَضَّاتُ فَقُمْتُ عَنْ ےَّسَارِہٖ فَاَخَذَ بِاُذُنِیْ فَاَدَارَنِیْ عَنْ ےَّمِےْنِہٖ فَتَتَاَمَّتْ صَلٰوتُہُ ثَلٰثَ عَشَرَۃَ رَکْعَۃً ثُمَّ اضْطَجَعَ فَنَامَ حَتّٰی نَفَخَ وَکَانَ اِذَا نَامَ نَفَخَ فَاٰذَنَہُ بِلَالٌ بِالصَّلٰوۃِ فَصَلّٰی وَلَمْ ےَتَوَضَّاْ وَکَانَ فِیْ دُعَآئِہٖ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ فِیْ قَلْبِیْ نُوْرًا وَّفِیْ بَصَرِیْ نُوْرًا وَّفِیْ سَمْعِیْ نُوْرًا وَّعَنْ ےَّمِےْنِیْ نُوْرًا وَّعَنْ ےَّسَارِیْ نُوْرًا وَّفَوْقِیْ نُوْرًا وَّتَحْتِیْ نُوْرًا وَّاَمَامِیْ نُوْرًا وَّخَلْفِیْ نُوْرًا وَّاجْعَلْ لِّیْ نُوْرًا وَّزَادَ بَعْضُھُمْ وَفِیْ لِسَانِیْ نُوْرًا وَّذَکَرَ وَعَصَبِیْ وَلَحْمِیْ وَدَمِیْ وَشَعْرِیْ وَبَشَرِیْ مُتَّفَقٌ عَلَےْہِ وَفِیْ رِوَاےَۃٍ لَّھُمَا وَاجْعَلْ فِیْ نَفْسِیْ نُوْرًا وَّاَعْظِمْ لِیْ نُوْرًا وَّفِیْ اُخْریٰ لِمُسْلِمٍ اَللّٰھُمَّ اَعْطِنِیْ نُوْرًا۔
" اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) میں نے اپنی خالہ ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں ایک رات گزاری، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (بھی اس رات کو) انہیں کے ہاں تھے (یعنی اس رات کو حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں کی باری تھی) کچھ رات گئے تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زوجہ (حضرت میمونہ ) سے باتیں کرتے رہے پھر سو گئے، جب تہائی یا اس سے بھی کچھ رات باقی رہ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ بیٹھے اور آسمان کی طرف دیکھ کر یہ آیت پڑھی آیت (اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ ١٩٠ ) 3۔ آل عمران : 190) (آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے اور رات و دن کے اختلاف (یعنی کبھی) اندھیرا، کبھی اجالا، کبھی گرمی، کبھی جاڑا، کبھی درازی ، کبھی کمی) میں بے شک عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری سورت پڑھی، پھر اٹھ کر مشک کے پاس گئے اور اس کا بند کھول کر پیالہ میں پانی ڈالا، پھر اچھا درمیانہ وضو کیا (یعنی نہ تو پانی اتنا زیادہ بہایا کہ حد اسراف کو پہنچ جاتا اور نہ اتنا کم ڈالا کہ اعضاء بھی تر نہ ہوتے بلکہ درمیانے درجے کا وضو کیا۔چنانچہ حدیث کے راوی فرماتے ہیں کہ درمیانے وضو کا مطلب یہ ہے کہ) بہت زیادہ پانی نہیں بہایا بلکہ (جن اعضاء کا دھونا فرض ہے) پانی ان اعضاء تک پہنچایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے یہ (دیکھ کر) میں بھی اٹھا اور (جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا تھا ) میں بھی اسی طرح وضو کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا کان پکڑ کر اپنی بائیں طرف سے مجھے گھما کر اپنی دائیں طرف کھڑا کر دیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیرہ رکعت نماز پوری ہو گئی تو لیٹ گئے ، چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوتے وقت خر اٹے لیتے تھے اس لئے سوکر خر اٹے لینے لگے، اتنے میں حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آکر نماز کا وقت شروع ہوجانے اور جماعت کے تیار ہونے کی اطلاع کی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کئے بغیر (سنت ) نماز پڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم (فرض و سنت کے درمیان) دعا میں یہ پڑھتے تھے : اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ فِیْ قَلْبِیْ نُورًا وَّفِیْ بَصَرِیْ نُورًا وَّفِیْ سَمْعِی نُوْرًا وَّعَنْ یَّمِیْنِیْ نُوْرًا وَّعَنْ یَّسَارِیْ نُوْرًا وَّفَوْقِیْ نُوْرًا وَّ تَحْتِیْ نُوْرًا وَّ اَمَامِیْ نُوْرًا وَّخَلْفِیْ نُوْرًا وَّاجْعَلْ لِیْ نُوْرًا ( اے اللہ میرے دل میں میری آنکھوں میں ، میرے کانوں میں ، میرے دائیں ، میرے بائیں ، میرے اوپر ، میرے نیچے ، میرے آگے اے اللہ ! میرے پیچھے، نور عطا کر اور میرے لئے نور ہی نور پیدا کر دے) اور بعض راویوں نے یہ الفاظ بھی نقل کئے وَفِیْ لِسَانِیْ نُوْرًا (یعنی میری زبان میں نور پیدا کر دے) بعض راویوں نے یہ الفاظ ذکر کئے ہیں۔ عَصَبِیْ وَلَحْمِیْ وَدَمِیْ وَشَعْرِیْ وَبَشَرِیْ یعنی میرے اعصاب میں، میرے گوشت میں، میرے خون میں، میرے بالوں میں، اور میری جلد میں نور پیدا کر دے (بخاری و مسلم ) اور بخاری و صحیح مسلم ہی کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں وَاجْعَلْ فِیْ نَفْسِیْ نُوْرًا وَّ اَعْظِمُ لِیْ نُوْرًا یعنی اے اللہ ! میری جان میں نور پیدا کر دے اور میرے لئے نور میں بڑائی دے۔ مسلم کی ایک دوسری روایت میں یہ ہے اَللّٰھُمَّ اَعْطِنِیْ نُوْرًا یعنی اے اللہ ! مجھے نور عطا فرما۔"
تشریح
جب حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کا وقت ہو جانے کی اطلاع دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے بیدار ہوئے۔ تو بغیر وضو کئے ہی فجر کی سنتیں پڑھ لیں اس موقع پر یہ اشکال پیدا نہیں کیا جا سکتا کہ آپ نے وضو کئے بغیر نماز کیسے پڑھی کیونکہ علماء لکھتے ہیں کہ سو جانے کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو اس لئے نہیں کیا کہ فقط سو جانے سے وضو نہیں ٹوٹتا بلکہ نیند سے بیداری کے بعد نماز پڑھنے کے لئے وضو اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ نیند میں وضو ٹوٹ جانے کا احتمال رہتا ہے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل چونکہ ہمیشہ بیدار رہتا تھا یہاں تک کہ نیند کی حالت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر کوئی غفلت طاری نہیں ہوتی تھی اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سونے میں یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو ٹوٹ گیا ہو، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم نہ ہوا ہو۔
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عشاء کی نماز کے بعد ایسی بات چیت جس کا موضوع دین و آخرت اور وعظ و نصیحت ہو یا اپنے اہل خانہ سے بطریق اختلاط ہو تو وہ مکروہ نہیں ہے۔
یہ حدیث حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی گزشہ حدیث سے مخالف نظر آتی ہے کیونکہ یہاں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے قول سے تو معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کو جو تیرہ رکعتیں پڑھیں ان میں وتر کی تین رکعت تو شامل تھیں لیکن فجر کی سنت کی دو رکعتیں ان میں شامل نہیں تھیں۔ جب کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ تیرہ رکعتوں میں وتر کے ساتھ ساتھ فجر کی دو رکعتیں بھی شامل ہوتی تھیں۔
لہٰذا ان دونوں حدیثوں میں اس تاویل سے مطابقت پیدا کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی تو تیرہ رکعت اس طرح پڑھتے تھے کہ ان میں فجر کی دو سنتیں بھی شامل ہوتی تھیں جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ذکر کیا ہے اور کبھی اس طرح پڑھتے تھے کہ ان میں فجر کی دو سنتیں شامل نہیں ہوتی تھیں جیسے کہ یہاں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے الفاظ سے معلوم ہوا۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے الفاظ سے یہ معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیند کی حالت میں خر اٹے لیتے تھے ۔ ظاہر ہے کہ ایسا ہونا بھی چاہیے تھا کیونکہ خر اٹے لینا سانس کی نالیوں کی کشادگی اور قوائے جسمانی کی صفائی اور صحت کی علامت ہے اور اس سے کسے انکار ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف یہ کہ روحانی اور باطنی طور پر کامل و اکمل تھے بلکہ جسمانی طور پر انتہائی صحت مند، قوی اور مضبوط و صاف اعضاء جسم کے مالک تھے۔
حدیث میں مذکور دعاء " دعائے طویل " کہلاتی ہے یہ دعا اکثر مشائخ کے معمول میں داخل ہے اسے تہجد کے بعد بھی پڑھنا ثابت ہے۔ اس دعا کی بڑی عظمت و فضیلت اور برکت ہے چنانچہ حضرت شیخ امام شہاب الدین سہروردی نے " عوراف" میں لکھا ہے کہ جس آدمی کو بھی میں نے اس دعا پر مواظبت و مداومت کرتے دیکھا ہے اس کے پاس ایک برکت محسوس ہوئی ہے۔