تقدیر پر ایمان لانے کا بیان
راوی:
وَعَنِ ابْنِ الدَّیْلَمِیِّ قَالَ اَتَیْتُ اُبَیَّ بْنَ کَعْبِ فَقُلْتُ لَہ، قَدْوَقَعَ فِیْ نَفْسِیْ شَیْیءِ مِّنَ الْقَدَرِ فَحَدِثْنِیْ لَعَلَّ اﷲَ اَنْ یُّذْھِبَہ، مِنْ قَلْبِیْ فَقَالَ لَوْ اَنَّ اﷲَ عَذَّبَ اَھْلَ سَمٰوَاتِۃٖ وَاَھْلَ اَرْضِہٖ عَذَّبَھُمْ وَھُوَ غَیْرُ ظَالِمِ لَھُمْ وَلَوْ رَجْمَھُمْ کَانَتْ رَحْمَتُۃ، خَیْرً الَّھُمْ مِنْ اَعْمَالِھِمْ وَلَوْ اَنْفَقْتَ مِثْلَ اُحُدِ ذَھَبًا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ مَا قَبِلَہُ اﷲُ مِنْکَ حَتّٰی تُؤْمِنَ بِالْقَدْرِ وَ تَعْلَمَ اَنَّ مَا اَصَابَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُخْطِئَکَ وَاَنَّ مَأَخْطَأَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُصِیْبَکَ وَلَوْ مُتَّ عَلٰی غَیْرِ ھٰذَا الَدَخَلْتَ النَّارَ قَالَ ثُمَّ اَتَیْتُ عَبْدَاﷲِ بْنَ مَسْعُوْدِ فَقَالَ مِثْلَ ذٰلِکَ قَالَ ثُمَّ اَتَیْتُ حُذَیْفَۃَ بْنَ الْیَمَانِ فَقَالَ مِثْلَ ذٰلِکَ ثُمَّ اَتَیْتُ زَیْدَ بْنَ ثَابِتِ فَحَدَّثَنِیْ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم مِثْلَ ذٰلِکَ۔ (رواہ مسند احمد بن حنبل ابوداؤد ابن ماجۃ)
" اور حضرت ابن دیلمی رحمہ اللہ (تابعی) ( حضرت ابن دیلمی رحمۃ اللہ علیہ تابعی ہیں اسم گرامی ضحاک بن فیروز دیلمی ہے آپ کا شمار یمن کے تابعین میں ہوتا ہے۔) فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابی کعب (صحابی) (حضرت ابی بن کعب انصاری و خزرجی ہیں کنیت ابوالمنذر ہے جو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی تھی آپ کی وفات حضرت عثمان کے دور خلافت میں ہوئی۔) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرے دل میں تقدیر کے بارہ میں کچھ شبہات پیدا ہو رہے ہیں (کہ جب تمام چیزیں نوشتہ تقدیر کے مطابق ہیں تو پھر یہ ثواب یا عذاب کیسا؟) اس لئے آپ کوئی حدیث بیان کیجئے تاکہ (اس کی وجہ سے ) شاید اللہ تعالیٰ میرے دل کو اس شبہ (کی گندگی) سے پاک کر دے۔ (یہ سن کر) انہوں نے فرمایا ۔ اگر اللہ تعالیٰ آسمان والوں اور زمین والوں کو عذاب میں مبتلا کرے تو وہ ان پر کسی طرح کا ظلم کرنے والا نہیں ہے (یعنی وہ اہل زمین اور اہل آسمان کو کتنا ہی عذاب دے اسے ظالم نہیں کہا جائے گا) اور اگر وہ ان کو اپنی رحمت سے نواز دے تو اس کی رحمت ان کے اعمال سے یقینا بہتر ہوگی، اور اگر تم اللہ کی راہ میں احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرو تو تمہارا یہ عمل خیر اللہ کے نزدیک اس وقت تک قبول نہیں ہوگا جب تک کہ تم تقدیر پر کامل اعتقاد و ایمان نہ رکھو اور یہ سمجھ لو کہ جو کچھ تم کو پہنچا ہے وہ (رکنے) اور خطا کرنے والا نہ تھا اور جو چیز رک گئی اور تمہیں نہیں پہنچی تو (سمجھو کہ) وہ تمہارے مقدر میں نہیں تھی ، اور اگر تم اس حالت میں مر جاؤ کہ اس کے خلاف عقیدہ ہو (یعنی تقدیر پر کامل ایمان نہ ہو) تو یقینا دوزخ میں جاؤ گے، ابن دیلمی فرماتے ہیں کہ ابی بن کعب کا یہ بیان سن کر میں عبداللہ بن مسعود کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہوں نے بھی یہی بیان کیا پھر حذیفہ بن یمان کے پاس گیا تو انہوں نے بھی یہی کہا اور پھر میں زید بن ثابت کے پاس پہنچا انہوں نے اس قسم کی حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا۔" (مسند احمد بن حنبل ، ابوداؤد، سنن ابن ماجہ)
تشریح
حدیث کے الفاظ اَنَّ مَا اَصَابَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُخْطِئَکَ الخ کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں جو کچھ حاصل ہو اس کے بارے میں یہ نہ کہو کہ اسے میں نے اپنی سعی و کوشش سے حاصل کیا ہے اور اگر کوئی چیز تمہیں نہ ملے تو یہ مت کہو کہ اگر یہ کوشش اور جدوجہد کرتا تو ضرور اسے حاصل کر لیتا اس لئے کہ جو کچھ تم تک پہنچا ہے اس میں تمہاری سعی و کوشش کو دخل نہیں ہوتا بلکہ وہ نوشتہ تقدیر کے مطابق پہنچتا ہے اور جو چیز تمہیں نہیں ملی وہ چونکہ ہمارے تمہارے مقدر میں نہیں تھی اس لئے وہ تمہاری کوشش سے بھی نہیں ملتی اس لئے یہ جان لینا چاہیے کہ کسی چیز کا حاصل ہونا اور نہ ملنا سب تقدیر الہٰی کے مطابق ہے۔