تقدیر پر ایمان لانے کا بیان
راوی:
وَعَنِ ابْنِ مَسْعُوْدِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اَلْوَائِدَۃُ وَالْمَوْءُ وْدَۃُ فِی النَّارِ۔ (رواہ ابوداؤد)
" اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ زندہ بچہ کو گاڑنے والی (عورت) اور وہ جس کو گاڑا گیا دونوں دوزخ میں ہیں۔" (سنن ابوداؤد)
تشریح
زمانہ جاہلیت میں زندہ بچوں کو دفن کر دینے کا درد ناک طریقہ جاری تھا، خصوصاً لڑکی کو تو پیدا ہوتے ہی منوں مٹی کے نیچے اندوہ ناک طریقہ پر دبا دیا جاتا تھا جب اسلام کی مقدس روشنی نے ظلم و جہل کی تمام تاریکیوں کو دور کیا تو یہ غیر انسانی طریقہ بھی ختم کر دیا گیا، اس کے بارے میں یہ حدیث وعید ہے اور زندہ بچوں کو دفن کر دینے والوں کو دوزخی قرار دے رہی ہے۔
" گاڑنے والی" سے مراد وہ عورت ہے جس نے بچہ کو زمین میں دفن کیا مثلاً دائی یا نو کر انی وغیرہ اور موؤدہ، جس کو گاڑا گیا ، سے مراد وہ عورت ہے جس نے اسے جنا ہے یعنی اس بچہ کی ماں جس کے حکم سے اس کو زمین میں دفن کیا گیا ہو۔
یا اس سے مراد وہی بچی ہے جس کو گاڑ دیا گیا ہے کہ جس طرح اس کے والدین دوزخی ہیں اسی طرح جب وہ بھی کمسنی کی حالت میں اس دنیا سے ختم کر دی گئی تو اپنے باپ کی طرح دوزخی ہوئی جیسا کہ اس سے پہلی حدیث سے معلوم ہوا کہ حالت کمسنی میں جو بچہ اس دنیا سے چلا جاتا ہے وہ اپنے باپ کے تابع ہوتا ہے۔