تقدیر پر ایمان لانے کا بیان
راوی:
وَعَنْ عَآئِشَۃَ قَالَتْ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم ذَرَارِیُ الْمُؤْمِنِیْنَ؟ قَالَ مِنْ اٰبَائِھِمْ فَقُلْتُ یَا رَسُوْلَ اﷲِ بَلَا عَمَلِ قَالَ اﷲُ اَعْلَمُ بِمَا کَانُوْا عَامِلِیْنَ قُلْتُ فَذَ رَارِیُ الْمُشْرِکِیْنَ؟ قَالَ مِنْ اٰبَآئِھِمْ قُلْتُ بِلَا عَمَلِ قَالَ اَﷲُ اَعْلَمُ بِمَا کَانُوْا عَا مِلِیْنَ۔ (رواہ ابوداؤد)
" اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا راوی ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، یا رسول اللہ (جنت و دوزخ کے سلسلہ میں) مسلمان بچوں کا کیا حکم ہے" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ اپنے باپوں کے تابع ہیں یعنی وہ اپنے باپوں کے ساتھ جنت میں ہیں" میں نے عرض کیا یا رسول اللہ بغیر کسی عمل کے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ وہ بچے جو کچھ کرنے والے تھے، میں نے پھر پوچھا اچھا مشرکوں کی اولاد کے بارہ میں کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ بھی اپنے باپوں کے تابع ہیں۔ میں نے (تعجب سے) پوچھا ، بغیر کسی عمل کے؟ آپ نے فرمایا اللہ ہی بہتر جانتا ہے وہ بچے جو کچھ کرنے والے تھے۔" (ابوداؤد)
تشریح
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا منشاء ان مومنین اور مشرک بچوں کے بارہ میں معلوم کرنا تھا جو حالت کمسنی میں اس دنیا سے کوچ کر گئے تھے اور جن سے کوئی عمل خیر یا عمل بد صادر نہیں ہوا تھا۔
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کے بعد حضرت عائشہ کو تعجب ہوا کہ مسلمان بچے بغیر کسی عمل کے بہشت میں کس طرح داخل ہو جائیں گے تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واللہ اعلم بما کانواعاملین (یعنی اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرنے والے تھے) کہہ کر قضا و قدر کی طرف اشارہ فرما دیا کہ وہ جو کچھ عمل کرنے والے تھے وہ نوشتہ تقدیر میں محفوظ ہو چکا ہے، گو اس وقت بالفعل ان سے عمل سرزد نہیں ہوئے ہیں لیکن جو کچھ عمل وہ زندگی کی حالت میں کرتے وہ اللہ کے علم میں ہوں گے اس لئے ان کے جنتی ہونے پر تعجب نہ کرو۔
مشرک بچوں کے بارے میں علامہ تور پشتی فرماتے ہیں کہ یہاں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ وہ دنیا میں اپنے باپوں کے تابع ہیں، آخرت کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور وہی جانتا ہے کہ وہاں ان کے ساتھ کیسا برتاؤ ہوگا اس لئے ان کے بارہ میں کوئی حکم یقین کے ساتھ نہیں لگایا جا سکتا۔