مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ ایمان کا بیان ۔ حدیث 105

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

راوی:

وَعَنْ عَآئِشَۃَ قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم سِتَّۃٌ لَعَنْتُھُمْ وَلَعَنَھُمْ اﷲُوَکُلُّ نَبِّیِ یُجَابُ اَلزَّائِدُ فِی کِتَابِ اﷲِ وَالْمُکَذِّبُ بِقَدَرِ اﷲِ وَالْمُتَسَلِّطُ بِالْجَبَرُوْتِ لِیُعِزَّ مَنْ اَذَلَّہُ اﷲُ وَیُذِلَّ مَنْ اَعَزَّہُ اﷲُ وَالْمُسْتَحِلُّ لِحُرُم اﷲ وَالْمُسْتَحِلُّ مِنْ عِتْرَتِیْ مَاحَرَّمَ اﷲُ وَالتَّارِکُ لِسُنَّتِیْ رَوَاہُ الْبَیْھَقِیُّ فِی الْمَدْخَلِ وَرَزِیْنٌ فِی کِتَابِہٖ۔ (بیہقی، رزین)

" اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ چھ آدمی ایسے ہیں جن پر میں لعنت بھیجتا ہوں اور اللہ نے بھی ان کو ملعون قرار دیا ہے اور ہر نبی کی دعا قبول ہوتی ہے۔ (پہلا) کتاب اللہ میں زیادتی کرنے والا (دوسرا) تقدیر الہٰی کو جھٹلانے والا۔ (تیسرا) وہ آدمی جو زبردستی غلبہ پانے کی بنا پر ایسے آدمی کو معزز بنائے جس کو اللہ نے ذلیل کر رکھا ہو اور اس آدمی کو ذلیل کرے جس کو اللہ تعالیٰ نے عزت و عظمت کی دولت سے نواز رکھا ہو۔ (چوتھا) وہ آدمی جو (حدود اللہ سے تجاوز کر کے اس چیز کو حلال جانے جسے اللہ نے حرام کیا ہو۔ (پانچواں) وہ جو میری اوالاد سے وہ چیز (قتل) حلال جانے جو اللہ نے حرام کی ہے۔ اور (چھٹا) وہ آدمی جو میری سنت کو چھوڑ دے۔" (بیہقی، رزین)

تشریح
حدیث میں جن اشخاص کا ذکر کیا گیا ہے وہ اپنے ان غلط عقائد اور گمراہ کن اعمال کی بنا پر شریعت کی نظر میں اتنے مجرم ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر لعنت فرمائی ہے اور نہ صرف یہ کہ دربار رسالت سے ان پر پھٹکار برسائی گئی ہے بلکہ وہ بارگاہ الوہیت سے بھی راندہ درگاہ کر دیئے گئے۔ چنانچہ کسی آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں پر لعنت کیوں بھیجتے ہیں؟ تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جواب دیا کہ چونکہ خدواند قدوس نے ان کو اپنے اعمال کی بنا پر ملعون قرار دیا ہے اس لئے یہ اسی کے مستحق ہیں کہ رسول بھی ان کو ملعون قرار دے اور ظاہر ہے نبی کی لسان مقدس سے نکلی ہوئی ہر دعا اور ہر بدعا باب قبولیت تک پہنچ کر رہتی ہے اس لئے جس پر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم لعنت بھیجیں اس کی دنیا بھی برباد ہوگئی اور دین میں تباہ ہو جائے گا اسی طرف کل نبی یجاب کہہ کر اشارہ فرمایا گیا ہے۔
ویسے تو اس حدیث میں جس ترکیب کے اعتبار سے یہ جملہ معترضہ واقع ہو رہا ہے اور اس کے مقصدلعنت میں شدت ہے ۔ پہلا آدمی جسے ملعون قرار دیا جارہا ہے وہ قرآن میں زیادتی کرنے والا ہے، خواہ وہ قرآن میں الفاط کی زیادتی کرے یا قرآن کی آیتوں کے ایسے معنی بیان کرے جو کتاب اللہ کے مفہوم کے خلاف اور منشاء الہٰی کے برعکس ہوں۔
تیسرا آدمی وہ ہے جو زبردستی غلبہ حاصل کرے اور اپنی ظاہری شان و شوکت کے بل بوتہ پر ان لوگوں کو معزز کرے جو اللہ کی نظروں میں ذلیل ہیں اور ان لوگوں کو ذلیل کرے جو اللہ کے یہاں بڑا مرتبہ رکھتے ہیں اور اس تیسرے آدمی سے مراد ایسے بادشاہ اور ظالم حاکم ہیں جو اپنے اغراض و مقاصد کی بنا پر حکومت و دولت کے نشہ میں اللہ کے ان صالح و نیک بندوں اور مسلمانوں کو ذلیل خوار کرتے ہیں جو اللہ کے نزدیک بڑی عزت و عظمت کے مالک ہوتے ہیں اور ایسے کافروں، جاہلوں اور بدکار لوگوں کو عزیز رکھتے ہیں جو اللہ کی نظر میں سخت ذلیل ہوتے ہیں۔
چوتھا آدمی وہ ہے جو اللہ کی قائم کی ہوئی حدود سے تجاوز کرتا ہے یعنی ان چیزوں کو حلال سمجھتا ہے جو اللہ کی جانب سے حرام کر دی گئی ہیں مثلاً بیت اللہ مکہ میں جن باتوں کو اللہ نے ممنوع قرار دیا ہے جیسے کسی جانور کا شکار کرنا، درخت وغیرہ کاٹنا، یا بغیر احرام کے مکہ میں داخل ہونا، ان کو وہ حلال سمجھتا ہو، ایسے ہی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد کے بارہ میں جن چیزوں کو اللہ نے حرام کیا ہے ان کو حرام کرتا ہو یعنی رسول اللہ صلی اللہ عنہ کی اولاد کی عزت و تعظیم کرنا ضروری ہے لیکن کوئی آدمی نہ کرنے کو جائز سمجھے یا ان کو تکلیف پہنچانا حرام قرار دیا گیا ہے ان کو تکلیف پہنچانا حلال جانے تو اس پر بھی لعنت فرمائی گئی۔
یا اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی آدمی میری اولاد میں سے ہونے کے باو جو ان افعال کو حلال جان کر کرتا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام کر دیا ہے اس طرح اس کا مقصد سیدوں کو تنبیہ کرنا ہے کہ یہ لوگ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں ہونے کے ناطے گناہ و معصیت سے بچتے رہیں، اس لئے کہ دوسری قوموں کے مقابلہ میں اس قوم کو گناہ و معصیت زیادہ برائی و تباہی کا باعث ہیں کیونکہ ان کا نسبی تعلق براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔
اسی طرح پانچواں ملعون وہ آدمی قرار دیا گیا ہے جو ان چیزوں کو حرام سمجھتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حلال کیا ہو۔
چھٹا ملعون آدمی کو قرار دیا گیا ہے جو سنت نبوی کو ترک کرتا ہو۔
اس کا مسئلہ یہ ہے کہ جو آدمی سستی اور کسل کی بنا پر سنت کو ترک کرتا ہو وہ گناہ گار ہے اور جو آدمی سنت کو نعوذ باللہ ناقابل اعتناء سمجھ کر چھوڑتا ہو تو وہ کافر ہے لیکن اس لعنت میں دونوں شریک ہیں۔ مگر یہ کہا جائے گا کہ جو آدمی ازراہ کسل و سستی سنت چھوڑتا ہے اس پر لعنت کرنا زجر و توبیخ کے لئے ہے اور جو آدمی ناقابل اعتناء سمجھ کر سنت کو ترک کرتا ہے اس پر حقیقۃ لعنت ہوگی ہاں اگر کوئی آدمی کسی وجہ سے کسی وقت سنت کو ترک کر دے تو اس پر گناہ نہیں ہوگا لیکن یہ بھی مناسب نہیں ہے۔
حضرت شاہ محمد اسحق دہلوی فرماتے ہیں کہ یہ وعید سنت موکدہ کے ترک کرنے پر ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں