مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ ایمان کا بیان ۔ حدیث 104

تقدیر پر ایمان لانے کا بیان

راوی:

وَعَنْ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا تُجَالِسُوْاَھْلَ الْقَدْرِوَ لَا تُفَاتِحُوْھُمْ۔ (رواہ ابودؤد)

" حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ قدریہ کی ہم نشینی اختیار نہ کرو اور نہ ان کو اپنا حکم (ثالث) بناؤ۔" (ابوداؤد)

تشریح
قدریہ کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، ان سے مجالست کرنا اور ان کی ہم نشینی اختیار کرنا ممنوع قرار دیا گیا ہے اس لئے کہ ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور ان کی مجلسوں میں شریک ہونے سے یہ ظاہر ہوگا کہ ان سے محبت و موانست ہے اور یہ مسلمانوں کے لئے مناسب نہیں ہے کہ کسی گمراہ جماعت سے تعلق قائم کریں اور ان سے انس و محبت کا برتاؤ کریں۔
اس لئے کہ جب ان کے ساتھ رہنا سہنا ہوگا اور ان کی ہم نشینی اختیار کی جائے گی تو ان کے غلط نظریات اور گمراہ اعتقادات کا اثر ان پاس بیٹھنے والوں پر بھی ہوگا اور ان کی گمراہی اہل مجلس کی اعتقاد و اعمال پر بھی اثر انداز ہوگی۔ اور ہو سکتا ہے کوئی شیطانی مکر و فریب میں آکر ان کے اعتقادات کو تسلیم کرے، اس لئے بنیادی طور پر ان کی مجالست و موانست سے بھی منع فرما دیا گیا ہے۔
اسی طرح حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے کسی تنازعہ میں اہل قدر کو حاکم نہ بنائیں اور نہ ان کو اپنا ثالث مقرر کریں لاتفاتحوھم کے معنی بعض حضرات یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کو نہ پہلے سلام کرو اور نہ از خود ان سے بات چیت شروع کرو۔ و اللہ اعلم۔

یہ حدیث شیئر کریں