ملت اور مذہب کا اختلاف ہو تو میراث نہیں ہے ۔
راوی:
عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ أَبِي حَکِيمٍ أَنَّ نَصْرَانِيًّا أَعْتَقَهُ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ هَلَکَ قَالَ إِسْمَعِيلُ فَأَمَرَنِي عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ أَنْ أَجْعَلَ مَالَهُ فِي بَيْتِ الْمَالِ
و حَدَّثَنِي عَنْ مَالِك عَنْ الثِّقَةِ عِنْدَهُ أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ يَقُولُ أَبَى عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَنْ يُوَرِّثَ أَحَدًا مِنْ الْأَعَاجِمِ إِلَّا أَحَدًا وُلِدَ فِي الْعَرَبِ قَالَ مَالِك وَإِنْ جَاءَتْ امْرَأَةٌ حَامِلٌ مِنْ أَرْضِ الْعَدُوِّ فَوَضَعَتْهُ فِي أَرْضِ الْعَرَبِ فَهُوَ وَلَدُهَا يَرِثُهَا إِنْ مَاتَتْ وَتَرِثُهُ إِنْ مَاتَ مِيرَاثَهَا فِي كِتَابِ اللَّهِ قَالَ مَالِك الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا وَالسُّنَّةُ الَّتِي لَا اخْتِلَافَ فِيهَا وَالَّذِي أَدْرَكْتُ عَلَيْهِ أَهْلَ الْعِلْمِ بِبَلَدِنَا أَنَّهُ لَا يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِرَ بِقَرَابَةٍ وَلَا وَلَاءٍ وَلَا رَحِمٍ وَلَا يَحْجُبُ أَحَدًا عَنْ مِيرَاثِهِ قَالَ مَالِك وَكَذَلِكَ كُلُّ مَنْ لَا يَرِثُ إِذَا لَمْ يَكُنْ دُونَهُ وَارِثٌ فَإِنَّهُ لَا يَحْجُبُ أَحَدًا عَنْ مِيرَاثِهِ
اسمعیل بن ابی حکیم سے روایت ہے کہ عمر بن عبدالعزیز کا ایک غلام نصرانی تھا اس کو انہوں نے آزاد کر دیا وہ مر گیا تو عمر بن عبدالعزیز نے مجھ سے کہا کہ اس کا مال بیت المال میں داخل کر دو ۔
سعید بن مسیب کہتے تھے کہ عمر بن خطاب نے انکار کیا غیر ملک کے لوگوں کی میراث دلانے کا اپنے ملک والوں کی مگر جو عرب میں پیدا ہوا ہو۔
کہا مالک نے اگر ایک عورت حاملہ کفار کے ملک میں سے آ کر عرب میں رہے اور وہاں (بچہ ) جنے تو وہ اپنے لڑکے کی وارث ہوگی اور لڑکا اس کا وارث ہو گا۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اجماعی ہے اور اس میں کچھ اختلاف نہیں ہے کہ مسلمان کافر کا کسی رشتہ کی وجہ سے وارث نہیں ہوسکتا خواہ وہ رشتہ نانے کا ہو یا ولاء کا یا قرابت کا اور نہ کسی کو اس کی وارثت سے محروم کرسکتا ہے۔
کہا مالک نے اسی طرح جو شخص میراث نہ پائے وہ دوسرے کو محروم نہیں کرسکتا۔