موطا امام مالک ۔ جلد اول ۔ کتاب قرض کے بیان میں ۔ حدیث 1285

جس طور سے مضاربت درست نہیں اس کا بیان

راوی:

بَاب مَا لَا يَجُوزُ فِي الْقِرَاضِ قَالَ مَالِك إِذَا كَانَ لِرَجُلٍ عَلَى رَجُلٍ دَيْنٌ فَسَأَلَهُ أَنْ يُقِرَّهُ عِنْدَهُ قِرَاضًا إِنَّ ذَلِكَ يُكْرَهُ حَتَّى يَقْبِضَ مَالَهُ ثُمَّ يُقَارِضُهُ بَعْدُ أَوْ يُمْسِكُ وَإِنَّمَا ذَلِكَ مَخَافَةَ أَنْ يَكُونَ أَعْسَرَ بِمَالِهِ فَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يُؤَخِّرَ ذَلِكَ عَلَى أَنْ يَزِيدَهُ فِيهِ قَالَ مَالِك فِي رَجُلٍ دَفَعَ إِلَى رَجُلٍ مَالًا قِرَاضًا فَهَلَكَ بَعْضُهُ قَبْلَ أَنْ يَعْمَلَ فِيهِ ثُمَّ عَمِلَ فِيهِ فَرَبِحَ فَأَرَادَ أَنْ يَجْعَلَ رَأْسَ الْمَالِ بَقِيَّةَ الْمَالِ بَعْدَ الَّذِي هَلَكَ مِنْهُ قَبْلَ أَنْ يَعْمَلَ فِيهِ قَالَ مَالِك لَا يُقْبَلُ قَوْلُهُ وَيُجْبَرُ رَأْسُ الْمَالِ مِنْ رِبْحِهِ ثُمَّ يَقْتَسِمَانِ مَا بَقِيَ بَعْدَ رَأْسِ الْمَالِ عَلَى شَرْطِهِمَا مِنْ الْقِرَاضِ قَالَ مَالِك لَا يَصْلُحُ الْقِرَاضُ إِلَّا فِي الْعَيْنِ مِنْ الذَّهَبِ أَوْ الْوَرِقِ وَلَا يَكُونُ فِي شَيْءٍ مِنْ الْعُرُوضِ وَالسِّلَعِ وَمِنْ الْبُيُوعِ مَا يَجُوزُ إِذَا تَفَاوَتَ أَمْرُهُ وَتَفَاحَشَ رَدُّهُ فَأَمَّا الرِّبَا فَإِنَّهُ لَا يَكُونُ فِيهِ إِلَّا الرَّدُّ أَبَدًا وَلَا يَجُوزُ مِنْهُ قَلِيلٌ وَلَا كَثِيرٌ وَلَا يَجُوزُ فِيهِ مَا يَجُوزُ فِي غَيْرِهِ لِأَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَالَ فِي كِتَابِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ

کہا مالک نے اگر ایک شخص کا قرض دوسرے پر آتا ہو پھر قرضدار یہ کہے قرضخواہ سے تو اپنا روپیہ مضاربت کے طور پر رہنے دے میرے پاس تو یہ درست نہیں بلکہ قرض خواہ کو چاہیے کہ اپنا روپیہ وصول کرلے پھر اختیار ہے خواہ مضاربت کے طور پر دے یا اپنے پاس رکھ چوڑے کیونکہ قبل روپیہ وصول کرنے کے اس کو مضاربت کر دینے میں ربا کا شبہ ہے گویا قرضدار نے مہلت لے کر قرض میں زیادتی کی۔
کہا مالک نے ایک شخص نے دوسرے کو روپیہ دیا مضاربت کے طور پر پھر اس میں سے کچھ روپیہ تلف ہوگیا قبل تجارت شروع کرنے کے پھر مضا رب نے جس قدر روپیہ بچا تھا اس میں تجارت کرکے نفع کمایا اب مضا رب یہ چاہے کہ رائس المال اسی کو قرار دے جو بچ رہا تھا بعد نقصان کے اور جس قدر اس سے زیادہ ہو اس کو نفع سمجھ کر آدھوں آدھ بانٹ لے تو یہ نہیں ہوسکتا بلکہ رائس المال کی تکمیل کرکے جو کچھ بچے گا اس کو شرط کے موافق تقسیم کرلیں گے۔
کہا مالک نے مضاربت درست نہیں مگر چاندی اور سونے میں اور اسباب وغیرہ میں درست نہیں لیکن قراض اور بیوع میں اگر فساد قلیل ہو اور فسخ ان کا دشوار ہو تو جائز ہوجائیں گے برخلاف ربا کے کہ وہ قلیل وکثیر حرام ہے کسی طرح جائز نہیں کیونکہ اللہ جل جلالہ فرماتا ہے اگر تم توبہ کرو ربا سے تو تم کو اس مال ملے گا نہ ظلم کرو نہ ظلم کئے جاؤ۔

Malik said, "When a man owes money to another man and he asks him to let it stay with him as a quirad, that is disapproved of until the creditor receives his property. Then he can make it a qirad loan or keep it. That is because the debtor may be in a tight situation, and want to delay it to increase it for him."

یہ حدیث شیئر کریں