بیع سلف کا بیان اور اسباب کو اسباب کے بدلے میں بیچنے کا بیان
راوی:
بَاب السَّلَفِ وَبَيْعِ الْعُرُوضِ بَعْضِهَا بِبَعْضٍ حَدَّثَنِي يَحْيَى عَنْ مَالِك أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ بَيْعٍ وَسَلَفٍ قَالَ مَالِك وَتَفْسِيرُ ذَلِكَ أَنْ يَقُولَ الرَّجُلُ لِلرَّجُلِ آخُذُ سِلْعَتَكَ بِكَذَا وَكَذَا عَلَى أَنْ تُسْلِفَنِي كَذَا وَكَذَا فَإِنْ عَقَدَا بَيْعَهُمَا عَلَى هَذَا الْوَجْهِ فَهُوَ غَيْرُ جَائِزٍ فَإِنْ تَرَكَ الَّذِي اشْتَرَطَ السَّلَفَ مَا اشْتَرَطَ مِنْهُ كَانَ ذَلِكَ الْبَيْعُ جَائِزًا قَالَ مَالِك وَلَا بَأْسَ أَنْ يُشْتَرَى الثَّوْبُ مِنْ الْكَتَّانِ أَوْ الشَّطَوِيِّ أَوْ الْقَصَبِيِّ بِالْأَثْوَابِ مِنَ الْإِتْرِيبِيِّ أَوْ الْقَسِّيِّ أَوْ الزِّيقَةِ أَوْ الثَّوْبِ الْهَرَوِيِّ أَوْ الْمَرْوِيِّ بِالْمَلَاحِفِ الْيَمَانِيَّةِ وَالشَّقَائِقِ وَمَا أَشْبَهَ ذَلِكَ الْوَاحِدُ بِالْاثْنَيْنِ أَوْ الثَّلَاثَةِ يَدًا بِيَدٍ أَوْ إِلَى أَجَلٍ وَإِنْ كَانَ مِنْ صِنْفٍ وَاحِدٍ فَإِنْ دَخَلَ ذَلِكَ نَسِيئَةٌ فَلَا خَيْرَ فِيهِ قَالَ مَالِك وَلَا يَصْلُحُ حَتَّى يَخْتَلِفَ فَيَبِينَ اخْتِلَافُهُ فَإِذَا أَشْبَهَ بَعْضُ ذَلِكَ بَعْضًا وَإِنْ اخْتَلَفَتْ أَسْمَاؤُهُ فَلَا يَأْخُذْ مِنْهُ اثْنَيْنِ بِوَاحِدٍ إِلَى أَجَلٍ وَذَلِكَ أَنْ يَأْخُذَ الثَّوْبَيْنِ مِنْ الْهَرَوِيِّ بِالثَّوْبِ مِنْ الْمَرْوِيِّ أَوْ الْقُوهِيِّ إِلَى أَجَلٍ أَوْ يَأْخُذَ الثَّوْبَيْنِ مِنْ الْفُرْقُبِيِّ بِالثَّوْبِ مِنْ الشَّطَوِيِّ فَإِذَا كَانَتْ هَذِهِ الْأَجْنَاسُ عَلَى هَذِهِ الصِّفَةِ فَلَا يُشْتَرَى مِنْهَا اثْنَانِ بِوَاحِدٍ إِلَى أَجَلٍ قَالَ مَالِك وَلَا بَأْسَ أَنْ تَبِيعَ مَا اشْتَرَيْتَ مِنْهَا قَبْلَ أَنْ تَسْتَوْفِيَهُ مِنْ غَيْرِ صَاحِبِهِ الَّذِي اشْتَرَيْتَهُ مِنْهُ إِذَا انْتَقَدْتَ ثَمَنَهُ
رسول اللہ نے منع کیا ہے بیع سے اور سلف سے ۔
کہا مالک نے اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص کسی سے کہے میں تیرا اسباب اس شرط سے لیتا ہوں کہ وہ مجھ سے سلف کرے اس طرح تو یہ جایز نہیں اگر سلف کی شرط موقوف کردے تو بیع جائز ہوجائے گی۔
کہا مالک نے جن کپڑوں میں کھلم کھلا فرق ہے ان میں سے ایک کو دو یا تین کے بدلے میں بیع کرنا نقدا نقد یا میعاد پر طرح سے درست ہے اور جب ایک کپڑا دوسرے کپڑے کے مشابہ ہو اگر نام جدا جدا ہوں تو کمی بیشی درست ہے مگر ادھار درست نہیں ۔
کہا مالک نے جس کپڑے کو خریدا اس کا بیچنا قبل قبضے کے بائع (بچنے والا) کے سوا اور کسی کے ہاتھ درست ہے ۔ جب کہ اس کی قیمت نقد لے لے۔
Yahya related to me from Malik that he had heard that the Messenger of Allah, may Allah bless him and grant him peace, forbade 'selling and lending.'