موطا امام مالک ۔ جلد اول ۔ کتاب بیع کے بیان میں ۔ حدیث 1247

جس طرح یا جس جانور کو بیچنا نا درست ہے ۔

راوی:

عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ أَنَّهُ قَالَ لَا رِبًا فِي الْحَيَوَانِ وَإِنَّمَا نُهِيَ مِنْ الْحَيَوَانِ عَنْ ثَلَاثَةٍ عَنْ الْمَضَامِينِ وَالْمَلَاقِيحِ وَحَبَلِ الْحَبَلَةِ وَالْمَضَامِينُ بَيْعُ مَا فِي بُطُونِ إِنَاثِ الْإِبِلِ وَالْمَلَاقِيحُ بَيْعُ مَا فِي ظُهُورِ الْجِمَالِ
قَالَ مَالِک لَا يَنْبَغِي أَنْ يَشْتَرِيَ أَحَدٌ شَيْئًا مِنْ الْحَيَوَانِ بِعَيْنِهِ إِذَا کَانَ غَائِبًا عَنْهُ وَإِنْ کَانَ قَدْ رَآهُ وَرَضِيَهُ عَلَی أَنْ يَنْقُدَ ثَمَنَهُ لَا قَرِيبًا وَلَا بَعِيدًا قَالَ مَالِک وَإِنَّمَا کُرِهَ ذَلِکَ لِأَنَّ الْبَائِعَ يَنْتَفِعُ بِالثَّمَنِ وَلَا يُدْرَی هَلْ تُوجَدُ تِلْکَ السِّلْعَةُ عَلَی مَا رَآهَا الْمُبْتَاعُ أَمْ لَا فَلِذَلِکَ کُرِهَ ذَلِکَ وَلَا بَأْسَ بِهِ إِذَا کَانَ مَضْمُونًا مَوْصُوفًا

سعید بن مسیب نے کہا حیوان میں ربا نہیں ہے بلکہ حیوان میں تین بیعیں نا درست ہیں ایک مضامیں کی دوسرے ملا قیح کی تیسے حبل الحبلہ کی مضامیں وہ جانور جو مادہ کے شکم میں ہیں ملاقیح وہ جانور جو رن کے پشت میں ہیں حبل الحبلہ کا بیان ابھی ہو چکا ہے ،۔
کہا مالک نے معین جانور کی بیع جب وہ غائب ہو خواہ نزدیک ہو یا دور درست نہیں ہے۔ اگرچہ مشتری (خریدنے والا) اس جانور کو دیکھ چکا ہو اور پسند کرچکا ہو اس کی وجہ یہ ہے کہ بائع (بچنے والا) مشتری (خریدنے والا) سے دام لے کر نفع اٹھائے گا۔ اور مشتری (خریدنے والا) کو معلوم نہیں وہ جانور صحیح سالم جس طور سے اس نے دیکھا تھا ملے یا نہ ملے البتہ اگر غیر معین جانور کو اوصاف بیان کرکے بیچے تو کچھ قباحت نہیں ۔

Yahya related to me from Malik from Ibn Shihab that Said ibn al-Musayyab said, "There is no usury in animals. There are three things forbidden in animals: al-madamin, al-malaqih and habal al-habala. Al-madamin is the sale of what is in the wombs of female camels. Al-malaqih is the sale of the breeding qualities of camels" (i.e. for stud).

یہ حدیث شیئر کریں