موطا امام مالک ۔ جلد اول ۔ کتاب بیع کے بیان میں ۔ حدیث 1237

اناج میں سلف کرنے کا بیان

راوی:

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّهُ قَالَ لَا بَأْسَ بِأَنْ يُسَلِّفَ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِي الطَّعَامِ الْمَوْصُوفِ بِسِعْرٍ مَعْلُومٍ إِلَی أَجَلٍ مُسَمًّی مَا لَمْ يَکُنْ فِي زَرْعٍ لَمْ يَبْدُ صَلَاحُهُ أَوْ تَمْرٍ لَمْ يَبْدُ صَلَاحُهُ
قَالَ مَالِك الْأَمْرُ عِنْدَنَا فِيمَنْ سَلَّفَ فِي طَعَامٍ بِسِعْرٍ مَعْلُومٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَحَلَّ الْأَجَلُ فَلَمْ يَجِدْ الْمُبْتَاعُ عِنْدَ الْبَائِعِ وَفَاءً مِمَّا ابْتَاعَ مِنْهُ فَأَقَالَهُ فَإِنَّهُ لَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَأْخُذَ مِنْهُ إِلَّا وَرِقَهُ أَوْ ذَهَبَهُ أَوْ الثَّمَنَ الَّذِي دَفَعَ إِلَيْهِ بِعَيْنِهِ وَإِنَّهُ لَا يَشْتَرِي مِنْهُ بِذَلِكَ الثَّمَنِ شَيْئًا حَتَّى يَقْبِضَهُ مِنْهُ وَذَلِكَ أَنَّهُ إِذَا أَخَذَ غَيْرَ الثَّمَنِ الَّذِي دَفَعَ إِلَيْهِ أَوْ صَرَفَهُ فِي سِلْعَةٍ غَيْرِ الطَّعَامِ الَّذِي ابْتَاعَ مِنْهُ فَهُوَ بَيْعُ الطَّعَامِ قَبْلَ أَنْ يُسْتَوْفَى قَالَ مَالِك وَقَدْ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الطَّعَامِ قَبْلَ أَنْ يُسْتَوْفَى قَالَ مَالِك فَإِنْ نَدِمَ الْمُشْتَرِي فَقَالَ لِلْبَائِعِ أَقِلْنِي وَأُنْظِرُكَ بِالثَّمَنِ الَّذِي دَفَعْتُ إِلَيْكَ فَإِنَّ ذَلِكَ لَا يَصْلُحُ وَأَهْلُ الْعِلْمِ يَنْهَوْنَ عَنْهُ وَذَلِكَ أَنَّهُ لَمَّا حَلَّ الطَّعَامُ لِلْمُشْتَرِي عَلَى الْبَائِعِ أَخَّرَ عَنْهُ حَقَّهُ عَلَى أَنْ يُقِيلَهُ فَكَانَ ذَلِكَ بَيْعَ الطَّعَامِ إِلَى أَجَلٍ قَبْلَ أَنْ يُسْتَوْفَى قَالَ مَالِك وَتَفْسِيرُ ذَلِكَ أَنَّ الْمُشْتَرِيَ حِينَ حَلَّ الْأَجَلُ وَكَرِهَ الطَّعَامَ أَخَذَ بِهِ دِينَارًا إِلَى أَجَلٍ وَلَيْسَ ذَلِكَ بِالْإِقَالَةِ وَإِنَّمَا الْإِقَالَةُ مَا لَمْ يَزْدَدْ فِيهِ الْبَائِعُ وَلَا الْمُشْتَرِي فَإِذَا وَقَعَتْ فِيهِ الزِّيَادَةُ بِنَسِيئَةٍ إِلَى أَجَلٍ أَوْ بِشَيْءٍ يَزْدَادُهُ أَحَدُهُمَا عَلَى صَاحِبِهِ أَوْ بِشَيْءٍ يَنْتَفِعُ بِهِ أَحَدُهُمَا فَإِنَّ ذَلِكَ لَيْسَ بِالْإِقَالَةِ وَإِنَّمَا تَصِيرُ الْإِقَالَةُ إِذَا فَعَلَا ذَلِكَ بَيْعًا وَإِنَّمَا أُرْخِصَ فِي الْإِقَالَةِ وَالشِّرْكِ وَالتَّوْلِيَةِ مَا لَمْ يَدْخُلْ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ زِيَادَةٌ أَوْ نُقْصَانٌ أَوْ نَظِرَةٌ فَإِنْ دَخَلَ ذَلِكَ زِيَادَةٌ أَوْ نُقْصَانٌ أَوْ نَظِرَةٌ صَارَ بَيْعًا يُحِلُّهُ مَا يُحِلُّ الْبَيْعَ وَيُحَرِّمُهُ مَا يُحَرِّمُ الْبَيْعَ قَالَ مَالِك مَنْ سَلَّفَ فِي حِنْطَةٍ شَامِيَّةٍ فَلَا بَأْسَ أَنْ يَأْخُذَ مَحْمُولَةً بَعْدَ مَحِلِّ الْأَجَلِ قَالَ مَالِك وَكَذَلِكَ مَنْ سَلَّفَ فِي صِنْفٍ مِنْ الْأَصْنَافِ فَلَا بَأْسَ أَنْ يَأْخُذَ خَيْرًا مِمَّا سَلَّفَ فِيهِ أَوْ أَدْنَى بَعْدَ مَحِلِّ الْأَجَلِ وَتَفْسِيرُ ذَلِكَ أَنْ يُسَلِّفَ الرَّجُلُ فِي حِنْطَةٍ مَحْمُولَةٍ فَلَا بَأْسَ أَنْ يَأْخُذَ شَعِيرًا أَوْ شَامِيَّةً وَإِنْ سَلَّفَ فِي تَمْرٍ عَجْوَةٍ فَلَا بَأْسَ أَنْ يَأْخُذَ صَيْحَانِيًّا أَوْ جَمْعًا وَإِنْ سَلَّفَ فِي زَبِيبٍ أَحْمَرَ فَلَا بَأْسَ أَنْ يَأْخُذَ أَسْوَدَ إِذَا كَانَ ذَلِكَ كُلُّهُ بَعْدَ مَحِلِّ الْأَجَلِ إِذَا كَانَتْ مَكِيلَةُ ذَلِكَ سَوَاءً بِمِثْلِ كَيْلِ مَا سَلَّفَ فِيهِ

عبداللہ بن عمر نے کہا کچھ قباحت نہیں اگر ایک مرد دوسرے مرد سے سلف کرے اناج میں جب اس کا وصف بیان کر دے نرخ مقرر کر کے میعاد معین پر جب وہ سلم کسی ایسے کھیت میں نہ ہو جس کی بہتری کا حال معلوم نہ ہو یا ایسی کھجور میں نہ ہو جس کی بہتری کا حال معلوم نہ ہو ۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم ہے جو شخص سلف کرے اناج میں نرخ مقرر کر کے مدت معین پر تو جب مدت گزرے اور خریدار بائع (بچنے والا) کے پاس وہ اناج نہ پائے اور سلف کو مسخ کرے تو خریدار کو چاہیے اپنی چاندی یا سونا دیا ہو یا قیمت دی ہوئی بعینہ پھیر لے یہ نہ کرے کہ اس کے بدلے میں دوسری چیز بائع (بچنے والا) سے خرید لے جب تک اپنے ثمن پر قبضہ نہ کر لے کیونکہ اگر خریدار نے جو قیمت دی ہے اس کے سوا کچھ لے آیا اس کے بدلے میں دوسرا اسباب خرید لے تو اس نے اناج کو قبل قبضہ کے بیچا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کیا ہے۔
کہا مالک نے اگر مشتری (خریدنے والا) نے بائع (بچنے والا) سے کہا سلف کو فسخ کر ڈال اور ثمن واپس کرنے کے لئے میں تجھ کو مہلت دیتا ہوں تو یہ جائز نہیں اور اہل علم اس کو منع کرتے ہیں کیونکہ جب میعاد گزر گئی اور اناج بائع (بچنے والا) کے ذمہ واجب ہو اب مشتری (خریدنے والا) نے اپنے حق وصول کرنے میں دیر کی اس شرط سے کہ بائع (بچنے والا) سلم کو فسخ کر ڈالے تو گویا مشتری (خریدنے والا) نے اپنے اناج کو ایک مدت پر بیچا قبل قبضے کے۔
کہا مالک نے اس کی مثال یہ ہے کہ جب مدت پوری ہوئی اور خریدار نے اناج لینا پسند نہ کیا تو اس اناج کے بدلے میں کچھ روپے ٹھہرا لئے ایک مدت پر تو یہ اقالہ نہیں ہے اقالہ وہ ہے جس میں کمی بیشی بائع (بچنے والا) یا مشتری (خریدنے والا) کی طرف سے نہ ہو اگر اس میں کمی بیشی ہوگی یا کوئی میعاد بڑھ جائے گی یا کچھ فائدہ مقرر ہوگا بائع (بچنے والا) کا یا مشتری (خریدنے والا) کا تو وہ اقالہ بیع سمجھا جائے گا اور اقالہ اور شرکت اور تولیہ جب تک درست ہیں کہ کمی بیشی یا میعاد نہ ہو اگر یہ چیزیں ہوں گی تو وہ نئی بیع سمجھیں گے ۔ جن وجوہ سے بیع درست ہوتی ہے یہ بھی درست ہوں گی اور جن وجوہ سے بیع نادرست ہوتی ہے یہ بھی نادرست ہوگی۔
کہا مالک نے جو شخص سلف میں عمدہ گیہوں ٹھہرائے پھر میعاد گزرنے کے بعد اس سے بہتر یا بری لے لے تو کچھ قباحت نہیں بشرطیکہ وزن وہی ہو جو ٹھہرا ہو یہی حکم انگور اور کھجور میں ہے۔

Yahya related to me from Malik from Nafi that Abdullah ibn Umar said that there was no harm in a man making an advance to another man for food, with a set description and price until a set date, as long as it was not in crops, or dates which had not begun to ripen.

یہ حدیث شیئر کریں