میووں کی بیع کا بیان
راوی:
بَاب بَيْعِ الْفَاكِهَةِ قَالَ مَالِك الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا أَنَّ مَنْ ابْتَاعَ شَيْئًا مِنْ الْفَاكِهَةِ مِنْ رَطْبِهَا أَوْ يَابِسِهَا فَإِنَّهُ لَا يَبِيعُهُ حَتَّى يَسْتَوْفِيَهُ وَلَا يُبَاعُ شَيْءٌ مِنْهَا بَعْضُهُ بِبَعْضٍ إِلَّا يَدًا بِيَدٍ وَمَا كَانَ مِنْهَا مِمَّا يَيْبَسُ فَيَصِيرُ فَاكِهَةً يَابِسَةً تُدَّخَرُ وَتُؤْكَلُ فَلَا يُبَاعُ بَعْضُهُ بِبَعْضٍ إِلَّا يَدًا بِيَدٍ وَمِثْلًا بِمِثْلٍ إِذَا كَانَ مِنْ صِنْفٍ وَاحِدٍ فَإِنْ كَانَ مِنْ صِنْفَيْنِ مُخْتَلِفَيْنِ فَلَا بَأْسَ بِأَنْ يُبَاعَ مِنْهُ اثْنَانِ بِوَاحِدٍ يَدًا بِيَدٍ وَلَا يَصْلُحُ إِلَى أَجَلٍ وَمَا كَانَ مِنْهَا مِمَّا لَا يَيْبَسُ وَلَا يُدَّخَرُ وَإِنَّمَا يُؤْكَلُ رَطْبًا كَهَيْئَةِ الْبِطِّيخِ وَالْقِثَّاءِ وَالْخِرْبِزِ وَالْجَزَرِ وَالْأُتْرُجِّ وَالْمَوْزِ وَالرُّمَّانِ وَمَا كَانَ مِثْلَهُ وَإِنْ يَبِسَ لَمْ يَكُنْ فَاكِهَةً بَعْدَ ذَلِكَ وَلَيْسَ هُوَ مِمَّا يُدَّخَرُ وَيَكُونُ فَاكِهَةً قَالَ فَأَرَاهُ حَقِيقًا أَنْ يُؤْخَذَ مِنْهُ مِنْ صِنْفٍ وَاحِدٍ اثْنَانِ بِوَاحِدٍ يَدًا بِيَدٍ فَإِذَا لَمْ يَدْخُلْ فِيهِ شَيْءٌ مِنْ الْأَجَلِ فَإِنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے جو شخص کوئی میوہ تر یا خشک خریدے اس کو نہ بیچے یہاں تک کہ اس پر قبضہ کرلے اور میوے کو میوے سے بدلیں اگر بیچے تو اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے اور جو میوہ لیا ایسا ہے کہ سوکھا کر کھایا جاتا ہے اور رکھا جاتا ہے اس کو اگر میوے کے بدلے میں بیچے اور ایک جنس ہو تو اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے اور برابر بیچے کمی بیشی اس میں درست نہیں البتہ اگر جنس مختلف ہو تو کمی بیشی درست ہے مگر نقدا نقد بیچنا چاہیے اس میں میعاد لگانا درست نہیں اور جو میوہ سوکھایا نہیں جاتا بلکہ تر کھایا جاتا ہے ۔ جیسے خربوزہ ککڑی ، ترنج ، کیلا، گا جر، انار وغیرہ اس کو ایک دوسرے کے بدلے میں اگرچہ جنس ایک ہو کمی بیشی کے ساتھ بھی درست ہے جب اس میں میعاد نہ ہو نقدا نقد ہو۔
Malik said, "The generally agreed on way of doing things among us is that some one who buys some fruit, fresh or dry, should not resell it until he gets full possession of it. He should not barter things of the same type, except hand to hand. Whatever can be made into dry fruit to be stored and eaten, should not be bartered for its own kind, except hand to hand, like for like, when it is the same kind of fruit. In the case of two different kinds of fruit, there is no harm in bartering two of one kind for one of another, hand to hand on the spot. It is not good to set delayed terms. As for produce which is not dried and stored but is eaten fresh like water melon, cucumber, melon, carrots, citron, medlars, pomegranates, and soon, which when dried no longer counts as fruit, and is not a thing which is stored up as is fruit, I think that it is quite proper to barter such things two for one of the same variety hand to hand. If no term enters into it, there is no harm in it."