غلام لونڈی میں عیب نکالنے کا بیان
راوی:
عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ بَاعَ غُلَامًا لَهُ بِثَمَانِ مِائَةِ دِرْهَمٍ وَبَاعَهُ بِالْبَرَائَةِ فَقَالَ الَّذِي ابْتَاعَهُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بِالْغُلَامِ دَائٌ لَمْ تُسَمِّهِ لِي فَاخْتَصَمَا إِلَی عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ فَقَالَ الرَّجُلُ بَاعَنِي عَبْدًا وَبِهِ دَائٌ لَمْ يُسَمِّهِ وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بِعْتُهُ بِالْبَرَائَةِ فَقَضَی عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ عَلَی عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنْ يَحْلِفَ لَهُ لَقَدْ بَاعَهُ الْعَبْدَ وَمَا بِهِ دَائٌ يَعْلَمُهُ فَأَبَی عَبْدُ اللَّهِ أَنْ يَحْلِفَ وَارْتَجَعَ الْعَبْدَ فَصَحَّ عِنْدَهُ فَبَاعَهُ عَبْدُ اللَّهِ بَعْدَ ذَلِکَ بِأَلْفٍ وَخَمْسِ مِائَةِ دِرْهَمٍ
قَالَ مَالِك الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا أَنَّ كُلَّ مَنْ ابْتَاعَ وَلِيدَةً فَحَمَلَتْ أَوْ عَبْدًا فَأَعْتَقَهُ وَكُلَّ أَمْرٍ دَخَلَهُ الْفَوْتُ حَتَّى لَا يُسْتَطَاعَ رَدُّهُ فَقَامَتْ الْبَيِّنَةُ إِنَّهُ قَدْ كَانَ بِهِ عَيْبٌ عِنْدَ الَّذِي بَاعَهُ أَوْ عُلِمَ ذَلِكَ بِاعْتِرَافٍ مِنْ الْبَائِعِ أَوْ غَيْرِهِ فَإِنَّ الْعَبْدَ أَوْ الْوَلِيدَةَ يُقَوَّمُ وَبِهِ الْعَيْبُ الَّذِي كَانَ بِهِ يَوْمَ اشْتَرَاهُ فَيُرَدُّ مِنْ الثَّمَنِ قَدْرُ مَا بَيْنَ قِيمَتِهِ صَحِيحًا وَقِيمَتِهِ وَبِهِ ذَلِكَ الْعَيْبُ قَالَ مَالِك الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا فِي الرَّجُلِ يَشْتَرِي الْعَبْدَ ثُمَّ يَظْهَرُ مِنْهُ عَلَى عَيْبٍ يَرُدُّهُ مِنْهُ وَقَدْ حَدَثَ بِهِ عِنْدَ الْمُشْتَرِي عَيْبٌ آخَرُ إِنَّهُ إِذَا كَانَ الْعَيْبُ الَّذِي حَدَثَ بِهِ مُفْسِدًا مِثْلُ الْقَطْعِ أَوْ الْعَوَرِ أَوْ مَا أَشْبَهَ ذَلِكَ مِنْ الْعُيُوبِ الْمُفْسِدَةِ فَإِنَّ الَّذِي اشْتَرَى الْعَبْدَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ إِنْ أَحَبَّ أَنْ يُوضَعَ عَنْهُ مِنْ ثَمَنِ الْعَبْدِ بِقَدْرِ الْعَيْبِ الَّذِي كَانَ بِالْعَبْدِ يَوْمَ اشْتَرَاهُ وُضِعَ عَنْهُ وَإِنْ أَحَبَّ أَنْ يَغْرَمَ قَدْرَ مَا أَصَابَ الْعَبْدَ مِنْ الْعَيْبِ عِنْدَهُ ثُمَّ يَرُدُّ الْعَبْدَ فَذَلِكَ لَهُ وَإِنْ مَاتَ الْعَبْدُ عِنْدَ الَّذِي اشْتَرَاهُ أُقِيمَ الْعَبْدُ وَبِهِ الْعَيْبُ الَّذِي كَانَ بِهِ يَوْمَ اشْتَرَاهُ فَيُنْظَرُ كَمْ ثَمَنُهُ فَإِنْ كَانَتْ قِيمَةُ الْعَبْدِ يَوْمَ اشْتَرَاهُ بِغَيْرِ عَيْبٍ مِائَةَ دِينَارٍ وَقِيمَتُهُ يَوْمَ اشْتَرَاهُ وَبِهِ الْعَيْبُ ثَمَانُونَ دِينَارًا وُضِعَ عَنْ الْمُشْتَرِي مَا بَيْنَ الْقِيمَتَيْنِ وَإِنَّمَا تَكُونُ الْقِيمَةُ يَوْمَ اشْتُرِيَ الْعَبْدُ قَالَ مَالِك الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا أَنَّ مَنْ رَدَّ وَلِيدَةً مِنْ عَيْبٍ وَجَدَهُ بِهَا وَكَانَ قَدْ أَصَابَهَا أَنَّهَا إِنْ كَانَتْ بِكْرًا فَعَلَيْهِ مَا نَقَصَ مِنْ ثَمَنِهَا وَإِنْ كَانَتْ ثَيِّبًا فَلَيْسَ عَلَيْهِ فِي إِصَابَتِهِ إِيَّاهَا شَيْءٌ لِأَنَّهُ كَانَ ضَامِنًا لَهَا قَالَ مَالِك الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا فِيمَنْ بَاعَ عَبْدًا أَوْ وَلِيدَةً أَوْ حَيَوَانًا بِالْبَرَاءَةِ مِنْ أَهْلِ الْمِيرَاثِ أَوْ غَيْرِهِمْ فَقَدْ بَرِئَ مِنْ كُلِّ عَيْبٍ فِيمَا بَاعَ إِلَّا أَنْ يَكُونَ عَلِمَ فِي ذَلِكَ عَيْبًا فَكَتَمَهُ فَإِنْ كَانَ عَلِمَ عَيْبًا فَكَتَمَهُ لَمْ تَنْفَعْهُ تَبْرِئَتُهُ وَكَانَ مَا بَاعَ مَرْدُودًا عَلَيْهِ قَالَ مَالِك فِي الْجَارِيَةِ تُبَاعُ بِالْجَارِيتَيْنِ ثُمَّ يُوجَدُ بِإِحْدَى الْجَارِيَتَيْنِ عَيْبٌ تُرَدُّ مِنْهُ قَالَ تُقَامُ الْجَارِيَةُ الَّتِي كَانَتْ قِيمَةَ الْجَارِيَتَيْنِ فَيُنْظَرُ كَمْ ثَمَنُهَا ثُمَّ تُقَامُ الْجَارِيتَانِ بِغَيْرِ الْعَيْبِ الَّذِي وُجِدَ بِإِحْدَاهُمَا تُقَامَانِ صَحِيحَتَيْنِ سَالِمَتَيْنِ ثُمَّ يُقْسَمُ ثَمَنُ الْجَارِيَةِ الَّتِي بِيعَتْ بِالْجَارِيتَيْنِ عَلَيْهِمَا بِقَدْرِ ثَمَنِهِمَا حَتَّى يَقَعَ عَلَى كُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا حِصَّتُهَا مِنْ ذَلِكَ عَلَى الْمُرْتَفِعَةِ بِقَدْرِ ارْتِفَاعِهَا وَعَلَى الْأُخْرَى بِقَدْرِهَا ثُمَّ يُنْظَرُ إِلَى الَّتِي بِهَا الْعَيْبُ فَيُرَدُّ بِقَدْرِ الَّذِي وَقَعَ عَلَيْهَا مِنْ تِلْكَ الْحِصَّةِ إِنْ كَانَتْ كَثِيرَةً أَوْ قَلِيلَةً وَإِنَّمَا تَكُونُ قِيمَةُ الْجَارِيَتَيْنِ عَلَيْهِ يَوْمَ قَبْضِهِمَا قَالَ مَالِك فِي الرَّجُلِ يَشْتَرِي الْعَبْدَ فَيُؤَاجِرُهُ بِالْإِجَارَةِ الْعَظِيمَةِ أَوْ الْغَلَّةِ الْقَلِيلَةِ ثُمَّ يَجِدُ بِهِ عَيْبًا يُرَدُّ مِنْهُ إِنَّهُ يَرُدُّهُ بِذَلِكَ الْعَيْبِ وَتَكُونُ لَهُ إِجَارَتُهُ وَغَلَّتُهُ وَهَذَا الْأَمْرُ الَّذِي كَانَتْ عَلَيْهِ الْجَمَاعَةُ بِبَلَدِنَا وَذَلِكَ لَوْ أَنَّ رَجُلًا ابْتَاعَ عَبْدًا فَبَنَى لَهُ دَارًا قِيمَةُ بِنَائِهَا ثَمَنُ الْعَبْدِ أَضْعَافًا ثُمَّ وَجَدَ بِهِ عَيْبًا يُرَدُّ مِنْهُ رَدَّهُ وَلَا يُحْسَبُ لِلْعَبْدِ عَلَيْهِ إِجَارَةٌ فِيمَا عَمِلَ لَهُ فَكَذَلِكَ تَكُونُ لَهُ إِجَارَتُهُ إِذَا آجَرَهُ مِنْ غَيْرِهِ لِأَنَّهُ ضَامِنٌ لَهُ وَهَذَا الْأَمْرُ عِنْدَنَا قَالَ مَالِك الْأَمْرُ عِنْدَنَا فِيمَنْ ابْتَاعَ رَقِيقًا فِي صَفْقَةٍ وَاحِدَةٍ فَوَجَدَ فِي ذَلِكَ الرَّقِيقِ عَبْدًا مَسْرُوقًا أَوْ وَجَدَ بِعَبْدٍ مِنْهُمْ عَيْبًا إِنَّهُ يُنْظَرُ فِيمَا وُجِدَ مَسْرُوقًا أَوْ وَجَدَ بِهِ عَيْبًا فَإِنْ كَانَ هُوَ وَجْهَ ذَلِكَ الرَّقِيقِ أَوْ أَكْثَرَهُ ثَمَنًا أَوْ مِنْ أَجْلِهِ اشْتَرَى وَهُوَ الَّذِي فِيهِ الْفَضْلُ فِيمَا يَرَى النَّاسُ كَانَ ذَلِكَ الْبَيْعُ مَرْدُودًا كُلُّهُ وَإِنْ كَانَ الَّذِي وُجِدَ مَسْرُوقًا أَوْ وُجِدَ بِهِ الْعَيْبُ مِنْ ذَلِكَ الرَّقِيقِ فِي الشَّيْءِ الْيَسِيرِ مِنْهُ لَيْسَ هُوَ وَجْهَ ذَلِكَ الرَّقِيقِ وَلَا مِنْ أَجْلِهِ اشْتُرِيَ وَلَا فِيهِ الْفَضْلُ فِيمَا يَرَى النَّاسُ رُدَّ ذَلِكَ الَّذِي وُجِدَ بِهِ الْعَيْبُ أَوْ وُجِدَ مَسْرُوقًا بِعَيْنِهِ بِقَدْرِ قِيمَتِهِ مِنْ الثَّمَنِ الَّذِي اشْتَرَى بِهِ أُولَئِكَ الرَّقِيقَ
سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر نے ایک غلام بیچا آٹھ سو درہم کو اور مشتری (خریدنے والا) سے شرط کرلی کہ عیب کی جواب دہی سے میں بری ہوا بعد اس کے مشتری (خریدنے والا) نے کہا غلام کو ایک بیماری ہے تم نے مجھ سے اس کا بیان نہیں کیا تھا پھر دونوں میں جھگڑا ہوا اور گئے عثمان بن عفان کے پاس مشتری (خریدنے والا) بولا کہ انہوں نے ایک غلام میرے ہاتھ بیچا اور اس کو ایک بیماری تھی انہوں نے بیان نہیں کیا عبداللہ بن عمر نے کہا کہ میں نے شرط کرلی تھی عیب کی جواب دہی میں نہ کروں گا حضرت عثمان نے حکم کیا کہ عبداللہ بن عمر حلف کریں میں نے یہ غلام بیچا اور میرے علم میں اس کو کوئی بیماری نہ تھی عبداللہ نے قسم کھالے سے انکار کیا تو وہ غلام پھر آیا عبداللہ پاس اور اس بیماری سے اچھا ہو گیا پھر عبداللہ نے اس کو ایک ہزار پانچ سو درہم کا بیچا ۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ مسئلہ اتفاقی ہے کہ جو شخص خریدے ایک لونڈی کو پھر وہ حاملہ ہو جائے خریدار سے یا غلام خرید لے پھر اس کو آزاد کر دے یا کوئی اور امر ایسا کرے جس کے سبب سے اس غلام یا لونڈی کا پھیرنا نہ ہو سکے بعد اس کے گواہ گواہی دیں کہ اس غلام یا لونڈی میں بائع (بچنے والا) کے پاس سے کوئی عیب تھا یا بائع (بچنے والا) خود اقرار کر لے کہ میرے پاس یہ عیب تھا یا اور کسی صورت سے معلوم ہو جائے کہ عیب بائع (بچنے والا) کے پاس ہی تھا تو اس غلام اور لونڈی کی خرید کے روز کے عیب سمیت قیمت لگا کر بے عیب کی بھی قیمت لگا دیں دونوں قیمتوں میں جس قدر فرق ہو اس قدرت مشتری (خریدنے والا) بائع (بچنے والا) سے پھیر لے۔
کہا مالک نے اگر کسی شخص نے ایک غلام خریدا پھر اس میں ایسا عیب پایا جس کی وجہ سے وہ غلام بائع (بچنے والا) کو بھیر سکتا ہے مگر مشتری (خریدنے والا) کے پاس جب وہ غلام آیا اس میں دوسرا عیب ہو گیا مثلا اس کا کوئی عضو کٹ گیا یا کانا ہو گیا تو مشتری (خریدنے والا) کو اختیار ہے چاہے اس غلام کو رکھ لے اور بائع (بچنے والا) سے عیب کا نقصان لے لے چاہے غلام کو واپس کر دے اور عیب کا تاوان دے اگر وہ غلام مشتری (خریدنے والا) کے پاس مر گیا تو عیب سمیت قیمت لگا دیں گے خرید کے روز کی مثلا جس دن خریدا تھا اس روز عیب سمیت اس غلام کی قیمت اسی دینار تھی اور بے عیب سو دینار تو مشتری (خریدنے والا) بیس دینار بائع (بچنے والا) سے مجرا لے گا مگر قیمت اس کی لفائی جائے گی جس دن خریدا تھا۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے کہ اگر ایک شخص نے لونڈی خریدی پھر عیب کی وجہ سے اسے واپس کر دیا مگر اس سے جماع کر چکا تھا تو اگر وہ لونڈی باکرہ تھی تو جس قدر اس کی قیمت میں نقصان ہو گیا مشتری (خریدنے والا) کو دینا ہوگا اور اگر ثییبہ تھی تو مشتری (خریدنے والا) کو کچھ دینا نہ ہو گا۔
کہا مالک نے ہمارے نزدیک اس پر اجماع ہے کہ اگر کوئی شخص غلام یا لونڈی یا اور کوئی جانور بیچے یہ شرط لگا کر کہ اگر کوئی عیب نکلے گا تو میں بری ہوں یا بائع (بچنے والا) عیب کی جواب دہی سے بری ہو جائے گا مگر جب جان بوجھ کر کوئی عیب اس میں ہو اور وہ اس کو چھپائے اگر ایسا کرے گا تو یہ شرط مفید نہ ہوگی اور وہ چیز بائع (بچنے والا) کو واپس کی جائے گی۔
کہا مالک نے اگر ایک لونڈی کو دو لونڈیوں کے بدلے میں بیچا پھر ان دو لونڈیوں میں سے ایک لونڈی میں کچھ عیب نکل جس کی وجہ سے وہ پھر سکتی ہے تو پہلے اس لونڈی کی قیمت لگائی جائے گی جس کے بدلے میں یہ دونوں لونڈیاں آئی ہیں پھر ان دونوں لونڈیوں کی بے عیب سمجھ کر قیمت لگا دیں گے پھر اس لونڈی کے زر ثمن کو ان دونوں لونڈیوں کی قیمت پر تقسیم کریں گے ہر ایک کا حصہ جدا ہوگا بے عیب لونڈی کا اس کے موافق اور عیب دار کا اس کے موافق پھر عیب دار لونڈی اس حصہ ثمن کے بدلے میں واپس کی جائے گی قلیل ہو یا کثیر مگر قیمت دو لونڈیوں کی اسی روز کی نگائی جائے گی جس دن وہ لونڈیاں مشتری (خریدنے والا) کے قبضے میں آئی ہیں ۔
کہا مالک نے اگر ایک شخص نے ایک غلام خریدا اور اس سے مزدوری کرائی اور مزدوری کے دام حاصل کئے قلیل ہوں یا کثیر بعد اس کے اس غلام میں عیب نکلا جس کی وجہ سے وہ غلام پھیر سکتا ہے تو وہ اس غلام کو پھیر دے اور مزدوری کے پیسے رکھ لے اس کا واپس کرنا ضروری نہیں ہمارے نزدیک جماعت علماء کا یہی مذہب ہے اس کی نظیر یہ ہے کہ اگر ایک شخص نے ایک غلام خریدا اور اس کے ہاتھ سے ایک گھر بنوایا جس کی بنوائی اس کی قیمت سے دوچند سہ چند ہے پھر عیب کی وجہ سے اسے واپس کر دیا تو غلام واپس ہو جائے گا اور بائع (بچنے والا) کو یہ اختیار نہ ہوگا کہ مشتری (خریدنے والا) سے گھر بنوانے کی مزدوری لے اسی طرح سے غلام کی کمائی بھی مشتری (خریدنے والا) کی رہے گی۔
کہا ملک نے اگر ایک شخص نے کئی غلام ایک ہی دفعہ (یعنی ایک ہی عقد میں) خریدے اب ان میں سے ایک غلام چوری کا نکلا یا اس میں کچھ عیب نکلا تو اگر وہی غلام سب غلاموں میں عمدہ اور ممتاز ہوگا اور اسی کی وجہ سے باقی غلام خریدے گئے ہوں تو ساری بیع فسخ ہو جائے گی اور سب غلام پھر واپس دیئے جائیں گے ۔ اگر ایسا نہ ہو تو صرف اس غلام کو پھیر دے گا اور زر ثمن میں سے بقدر اس کی قیمت کے حصہ لگا کر بائع (بچنے والا) سے واپس لے گا۔
Yahya related to me from Malik from Yahya ibn Said from Salim ibn Abdullah that Abdullah ibn Umar sold one of his slaves for eight hundred dirhams with the stipulation that he was not responsible for defects. The person who bought the slave complained to Abdullah ibn Umar that the slave had a disease which he had not told him about. They argued and went to Uthman ibn Affan for a decision . The man said, "He sold me a slave with a disease which he did not tell me about." Abdullah said, "I sold to him with the stipulation that I was not responsible." Uthman ibn Affan decided that Abdullah ibn Umar should take an oath that he had sold the slave without knowing that he had any disease. Abdullah ibn Umar refused to take the oath, so the slave was returned to him and recovered his health in his possession. Abdullah sold him afterwards for 1500 dirhams.