فتنہ دجال حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کا نزول اور خروج یاجوج ماجوج۔
راوی: محمد بن عبداللہ بن نمیر , ابواسماعیل بن ابی خالد , مجالد , شعبی , فاطمہ بنت قیس
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ عَنْ مُجَالِدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ قَالَتْ صَلَّی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ وَصَعِدَ الْمِنْبَرَ وَکَانَ لَا يَصْعَدُ عَلَيْهِ قَبْلَ ذَلِکَ إِلَّا يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَاشْتَدَّ ذَلِکَ عَلَی النَّاسِ فَمِنْ بَيْنِ قَائِمٍ وَجَالِسٍ فَأَشَارَ إِلَيْهِمْ بِيَدِهِ أَنْ اقْعُدُوا فَإِنِّي وَاللَّهِ مَا قُمْتُ مَقَامِي هَذَا لِأَمْرٍ يَنْفَعُکُمْ لِرَغْبَةٍ وَلَا لِرَهْبَةٍ وَلَکِنَّ تَمِيمًا الدَّارِيَّ أَتَانِي فَأَخْبَرَنِي خَبَرًا مَنَعَنِي الْقَيْلُولَةَ مِنْ الْفَرَحِ وَقُرَّةِ الْعَيْنِ فَأَحْبَبْتُ أَنْ أَنْشُرَ عَلَيْکُمْ فَرَحَ نَبِيِّکُمْ أَلَا إِنَّ ابْنَ عَمٍّ لِتَمِيمٍ الدَّارِيِّ أَخْبَرَنِي أَنَّ الرِّيحَ أَلْجَأَتْهُمْ إِلَی جَزِيرَةٍ لَا يَعْرِفُونَهَا فَقَعَدُوا فِي قَوَارِبِ السَّفِينَةِ فَخَرَجُوا فِيهَا فَإِذَا هُمْ بِشَيْئٍ أَهْدَبَ أَسْوَدَ قَالُوا لَهُ مَا أَنْتَ قَالَ أَنَا الْجَسَّاسَةُ قَالُوا أَخْبِرِينَا قَالَتْ مَا أَنَا بِمُخْبِرَتِکُمْ شَيْئًا وَلَا سَائِلَتِکُمْ وَلَکِنْ هَذَا الدَّيْرُ قَدْ رَمَقْتُمُوهُ فَأْتُوهُ فَإِنَّ فِيهِ رَجُلًا بِالْأَشْوَاقِ إِلَی أَنْ تُخْبِرُوهُ وَيُخْبِرَکُمْ فَأَتَوْهُ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَإِذَا هُمْ بِشَيْخٍ مُوثَقٍ شَدِيدِ الْوَثَاقِ يُظْهِرُ الْحُزْنَ شَدِيدِ التَّشَکِّي فَقَالَ لَهُمْ مِنْ أَيْنَ قَالُوا مِنْ الشَّامِ قَالَ مَا فَعَلَتْ الْعَرَبُ قَالُوا نَحْنُ قَوْمٌ مِنْ الْعَرَبِ عَمَّ تَسْأَلُ قَالَ مَا فَعَلَ هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي خَرَجَ فِيکُمْ قَالُوا خَيْرًا نَاوَی قَوْمًا فَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ فَأَمْرُهُمْ الْيَوْمَ جَمِيعٌ إِلَهُهُمْ وَاحِدٌ وَدِينُهُمْ وَاحِدٌ قَالَ مَا فَعَلَتْ عَيْنُ زُغَرَ قَالُوا خَيْرًا يَسْقُونَ مِنْهَا زُرُوعَهُمْ وَيَسْتَقُونَ مِنْهَا لِسَقْيِهِمْ قَالَ فَمَا فَعَلَ نَخْلٌ بَيْنَ عَمَّانَ وَبَيْسَانَ قَالُوا يُطْعِمُ ثَمَرَهُ کُلَّ عَامٍ قَالَ فَمَا فَعَلَتْ بُحَيْرَةُ الطَّبَرِيَّةِ قَالُوا تَدَفَّقُ جَنَبَاتُهَا مِنْ کَثْرَةِ الْمَائِ قَالَ فَزَفَرَ ثَلَاثَ زَفَرَاتٍ ثُمَّ قَالَ لَوْ انْفَلَتُّ مِنْ وَثَاقِي هَذَا لَمْ أَدَعْ أَرْضًا إِلَّا وَطِئْتُهَا بِرِجْلَيَّ هَاتَيْنِ إِلَّا طَيْبَةَ لَيْسَ لِي عَلَيْهَا سَبِيلٌ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَی هَذَا يَنْتَهِي فَرَحِي هَذِهِ طَيْبَةُ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا فِيهَا طَرِيقٌ ضَيِّقٌ وَلَا وَاسِعٌ وَلَا سَهْلٌ وَلَا جَبَلٌ إِلَّا وَعَلَيْهِ مَلَکٌ شَاهِرٌ سَيْفَهُ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ
محمد بن عبداللہ بن نمیر، ابواسماعیل بن ابی خالد، مجالد، شعبی، حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ ایک روز نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز ادا فرمائی اور منبر پر تشریف لائے اس سے قبل آپ جمعہ کے علاوہ منبر پر تشریف نہ لے جاتے تھے۔ لوگوں کو یہ بات گراں گزری (اور گھبرا گئے کہ نہ معلوم کیا بات ہے) کچھ لوگ کھڑے ہوئے تھے اور کچھ بیٹھے ہوئے آپ نے انہیں ہاتھ کے اشارہ سے بیٹھنے کا امر فرمایا (پھر فرمایا) واللہ میں اس جگہ کسی ایسے امر کی وجہ سے کھڑا نہیں ہوا جس سے تمہیں ترغیب یا ترتیب کا فائدہ ہو بلکہ (وجہ یہ ہوئی کہ) تمیم داری میرے پاس آئے اور مجھے ایسی بات بتائی کہ خوشی اور فرحت کیوجہ سے میں دوپہر سو نہ سکا تو میں نے چاہا کہ خوشی تمہارے اندر بھی پھیلادوں غور سے سنو تمیم داری کے چچازاد بھائی نے مجھے بتایا کہ (سمندری سفر میں) باد مخالف انہیں ایک غیر معروف جزیرہ میں لے گئی یہ (تمام مسافر) چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر اس جزیرہ میں اترے وہاں لمبے بالوں والی ایک سیاہ چیز دیکھی انہوں نے اس سے پوچھا تو کون ہے؟ کہنے لگی میں جاسوس ہوں۔ انہوں نے کہا پھر ہمیں بتاؤ (خبریں دو کہ جاسوس کا یہی کام ہے) کہنے لگی میں تمہیں کچھ خبر نہ دوں گی اور نہ ہی تم سے کچھ پوچھوں گی لیکن اس مندر میں جاؤ اور دیکھو جو تم کو وہاں نظر آتا ہے۔ وہاں ایک شخص ہے جو تم سے باتیں کرنے کا بڑا شائق ہے یعنی تم سے خبر پوچھنے کا اور تم کو خبریں دینے کا ۔ خیر وہ لوگ اس مندر (عبادت خانہ) میں گئے۔ دیکھا تو ایک بوڑھا ہے جو خوب جکڑا ہوا ہے۔ ہائے ہائے کرتا ہے بہت رنج میں ہے اور شکایت میں۔ ہم نے اس سے کہا خرابی ہوتیری تو کون ہے؟ وہ بولا تم میری خبر لینے پر قادر ہوئے پہلے اپنی خبر بیان کرو۔ تم کون لوگ ہو؟ (پھر) اس نے کہا تم لوگ کہاں سے آئے ہو؟ انہوں نے کہا شام سے۔ اس نے پوچھا عرب کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا ہم عرب ہی کے لوگ ہیں جن کو تو پوچھتا ہے۔ اس نے کہا اس شخص کا (نبی) کا کیا حال ہے جو تم لوگوں میں پیدا ہوا؟ ان لوگوں نے کہا اچھا حال ہے۔ اس نبی نے ایک قوم سے دشمنی کی لیکن اللہ نے اس کو غالب کر دیا۔ اب عرب کے لوگ مذہب میں ایک ہوگئے ان کا اللہ ایک ہی ہے اور انکا دین بھی ایک ہی ہے۔ پھر اس نے پوچھا زُغر کے چشمہ کا کیا حال ہے؟ زغر ایک گاؤں ہے شام میں جہاں زغر حضرت لوط علیہ السلام کی بیٹی اتریں تھیں وہاں ایک چشمہ ہے اس کا پانی سوکھ جانا دجال کے نکلنے کی نشانی ہے۔ انہوں نے کہا اچھا حال ہے۔ لوگ اس میں سے اپنے کھیتوں کو پانی دیتے ہیں اور پینے کیلئے بھی اس میں سے پانی لیتے ہیں پھر اس نے پوچھاعمان اور بیسان کے درمیان کی کھجور کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا ہر سال اس میں سے کھجور اترتی ہے۔ پھر اس نے کہا طبریہ کے تالاب کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا اس کے دونوں کناروں پر پانی کودتا ہے یعنی اس میں پانی کثرت سے ہے۔ یہ سن کے تین بار وہ شخص کودا پھر کہنے لگا اگر میں اس قید سے چھوٹوں تو کسی زمین کو نہ چھوڑوں گا جہاں میں نہ جاؤں سوا (مدینہ) طیبہ کے۔ وہاں جانے کی مجھ کو طاقت نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس پر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ طیبہ یہی شہر ہے۔ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مدینہ میں کوئی تنگ راہ ہو یا کشادہ ہو نرم زمین ہو یا سخت پہاڑ مگر اس جگہ ایک فرشتہ ننگی تلوار لئے ہوئے معین ہے قیامت تک۔
It was narrated that Fatimah bint Qais said: "The Messenger of Allah P.B.U.H prayed day, and ascended the pulpit, and that. excep alarmed by that, and people" were standing and some were sitting.' He gestured to them with his hand, telling them to sit.(Then he said:) 'By Allah,I am not standing here for something that will not benefit you, an exhortation or warning. Rather Tamim Dari has come to me and told me something that prevented me from taking a rest because of the joy and delight (I felt), and I wanted to spread that joy among you. A cousin of Tamim Dari told me that the wind drove them to an island that they did not know, so they sat in the rowing boats of the ship and set out. There they saw something black, with long eyelashes. They said to it: "What are you?" It said "I am Jassa'sah," They said: "Tell us." It said: "I will not tell you anything or ask you anything. Rather there is this monastery that you have looked at. Go to it, for there is a man there who is longing to hear your news and tell you news." So they Went there and entered upon him, and they saw an old man firmly shackled, with a sorrowful appearance and complaining a great deal. He said to them: "Where have you come from?" They said: "From Sham." He said: How are the Arabs faring?" They said: "We are from among the Arabs. What do you want to ask about?" He said: "What has man done who has appeared among you?" They said: "(He has done) well. He made enemies of some people, but Allah supported him against them and now they have become one, with one God and one religion." He said: "What happened to the spring of Zughar?" They said: "It is good; we irrigate our crops from it and drink from it." He said: "What happened to the date-palms between 'Amman and Baisan?" They said: "They bear fruit every year." He said: "What happened to the Lake of Tiberias?" They said: "It overflows because of the abundance of water." He gave three deep sighs, then he said: "If I were to free myself from these chains, I would not leave any land without entering it on these two feet of mine, except for Taibah, for I have no way to enter it." The Prophet P.B.U.H said: 'My joy is so great. This (Al-Madinah) is Taibah, and by the One in Whose Hand is my soul, there is no narrow or broad road in it, or any plain or mountain, but there is an angel (standing) over it with his sword unsheathed, until the Day of Resurrection:" (Daif)