اللہ تعالیٰ کا ارشاد اے ایمان والو! تم اپنی فکر کرو۔ کی تفسیر ۔
راوی: عباس بن ولید دمشقی , زید بن یحییٰ بن عبیدالخزاعی , ہیثم بن حمید , ابومعید حفص , غیلان مکحول , انس بن مالک
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ الدِّمَشْقِيُّ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ يَحْيَی بْنِ عُبَيْدٍ الْخُزَاعِيُّ حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَيْدٍ حَفْصُ بْنُ غَيْلَانَ الرُّعَيْنِيُّ عَنْ مَکْحُولٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَتَی نَتْرُکُ الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيَ عَنْ الْمُنْکَرِ قَالَ إِذَا ظَهَرَ فِيکُمْ مَا ظَهَرَ فِي الْأُمَمِ قَبْلَکُمْ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا ظَهَرَ فِي الْأُمَمِ قَبْلَنَا قَالَ الْمُلْکُ فِي صِغَارِکُمْ وَالْفَاحِشَةُ فِي کِبَارِکُمْ وَالْعِلْمُ فِي رُذَالَتِکُمْ قَالَ زَيْدٌ تَفْسِيرُ مَعْنَی قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْعِلْمُ فِي رُذَالَتِکُمْ إِذَا کَانَ الْعِلْمُ فِي الْفُسَّاقِ
عباس بن ولید دمشقی، زید بن یحییٰ بن عبیدالخزاعی، ہیثم بن حمید، ابومعید حفص، غیلان مکحول، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کسی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کب ترک کرسکتے ہیں؟ فرمایا جب تم میں وہ امور ظاہر ہوں جو تم سے پہلی امتوں میں ظاہر ہوئے ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم سے پہلی امتوں میں کیا امور ظاہر ہوئے۔ فرمایا گھٹیا لوگ حکمران بن جائیں اور معزز لوگوں میں فسق وفجور آجائے اور علم کمینے لوگ حاصل کرلیں (راوی حدیث) حضرت زید فرماتے ہیں کہ گھٹیا لوگوں کے علم حاصل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بے عمل فاسق لوگ علم حاصل کریں ( اور بے عمل ہی رہیں)۔
It was narrated that Anas bin Malik said: "It was said:Messenger of Allah, when should we stop enjoining what is good and forbidding what is evil?' He said: 'When there appears among you that which appeared among those who came before you.' We said: ‘0 Messenger of Allah, what appeared among those who came before us?’ He said: ‘Kingship given to your youth, immorality even among the old, and knowledge among the base and vile.” (Hasan) Zaid said: “The meaning of the Prophet’s words: ‘Knowledge among the base and vile’ is when knowledge is found among the evildoers.”