سنن ابن ماجہ ۔ جلد اول ۔ سنت کی پیروی کا بیان ۔ حدیث 223

علمائ(کرام) کی فضیلت اور طلب علم پر ابھارنا

راوی: نصر بن علی جہضمی , عبداللہ بن داؤد , عاصم بن رجاء بن حیوة , داؤد بن جمیل , کثیر بن قیس

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ رَجَائِ بْنِ حَيْوَةَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ جَمِيلٍ عَنْ کَثِيرِ بْنِ قَيْسٍ قَالَ کُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ أَبِي الدَّرْدَائِ فِي مَسْجِدِ دِمَشْقَ فَأَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ يَا أَبَا الدَّرْدَائِ أَتَيْتُکَ مِنْ الْمَدِينَةِ مَدِينَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحَدِيثٍ بَلَغَنِي أَنَّکَ تُحَدِّثُ بِهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَمَا جَائَ بِکَ تِجَارَةٌ قَالَ لَا قَالَ وَلَا جَائَ بِکَ غَيْرُهُ قَالَ لَا قَالَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ سَلَکَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ طَرِيقًا إِلَی الْجَنَّةِ وَإِنَّ الْمَلَائِکَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا رِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ وَإِنَّ طَالِبَ الْعِلْمِ يَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَائِ وَالْأَرْضِ حَتَّی الْحِيتَانِ فِي الْمَائِ وَإِنَّ فَضْلَ الْعَالِمِ عَلَی الْعَابِدِ کَفَضْلِ الْقَمَرِ عَلَی سَائِرِ الْکَوَاکِبِ إِنَّ الْعُلَمَائَ هُمْ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَائِ إِنَّ الْأَنْبِيَائَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا إِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ

نصر بن علی جہضمی، عبداللہ بن داؤد، عاصم بن رجاء بن حیوة، داؤد بن جمیل، کثیر بن قیس کہتے ہیں میں دمشق کی مسجد میں ابودرداء کے پاس بیٹھا تھا۔ ایک صاحب ان کے پاس آئے اور کہا اے ابودرداء میں آپ کے پاس مدینة الرسول سے آیا ہوں ، ایک حدیث کی خاطر۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ وہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے (بلا واسطہ) روایت کرتے ہیں۔ فرمایا تم کسی تجارت کے لئے (بھی) آئے ہو؟ کہا نہیں۔ فرمایا اور کوئی بھی کام نہ تھا؟ عرض کیا نہیں۔ فرمایا بلاشبہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا جو طلب علم کی خاطر کوئی راستہ چلا، اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کا راستہ آسان فرما دیتے ہیں اور فرشتے طالب علم پر خوشی کی وجہ سے اپنے پر سمیٹ لیتے ہیں اور آسمان و زمین کی مخلوق طالب علم کے لئے بخشش طلب کرتی ہیں حتی کہ مچھلیاں پانی میں اور عالم کی فضیلت عابد کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر۔ بلاشبہ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ انبیاء دنیا و درہم کا وارث نہیں بناتے وہ صرف علم کا وارث بناتے ہیں اس لئے جس نے علم حاصل کیا بڑا حصہ حاصل کیا۔

It was narrated that Kathir bin Qais said: “I was sitting with Abu Dardâ’ in the Masjid of Damascus, when a man came to him arid said: ‘0 Abu Dardâ’, I have come to you from Al-Madinah, the city of the Messenger of Allah , for a Hadith which I have heard that you narrate from the Prophet p.b.u.h.’ He said: ‘Did you not come for trade?’ He said: ‘No.’ He said: ‘Did you not come for anything else?’ He said: ‘No.’ He said: ‘I heard the Messenger of Allah say: “Whoever follows a path in the pursuit of knowledge, Allah will make easy for him a path to Paradise. The angels lower their wings in approval of the seeker of knowledge, and everyone in the heavens and on earth prays for forgiveness for the seeker of knowledge, even the fish in the sea. The superiority of the scholar over the worshipper is like the superiority of the moon over all other heavenly bodies. The scholars are the heirs of the Prophets, for the Prophets did not leave behind Dinâr or Dirham, rather they left behind knowledge, so whoever takes it has taken a great share.” (Da’if)

یہ حدیث شیئر کریں