زکوة میں برا مال نکالنے کی ممانعت
راوی: احمد بن محمد بن یحییٰ بن سعید قطان , عمرو بن محمد عنقزی , اسباط بن نصر , سدی , عدی بن ثابت , براء بن عازب
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَنْقَزِيُّ حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ نَصْرٍ عَنْ السُّدِّيِّ عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ فِي قَوْلِهِ سُبْحَانَهُ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَکُمْ مِنْ الْأَرْضِ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ قَالَ نَزَلَتْ فِي الْأَنْصَارِ کَانَتْ الْأَنْصَارُ تُخْرِجُ إِذَا کَانَ جِدَادُ النَّخْلِ مِنْ حِيطَانِهَا أَقْنَائَ الْبُسْرِ فَيُعَلِّقُونَهُ عَلَی حَبْلٍ بَيْنَ أُسْطُوَانَتَيْنِ فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَأْکُلُ مِنْهُ فُقَرَائُ الْمُهَاجِرِينَ فَيَعْمِدُ أَحَدُهُمْ فَيُدْخِلُ قِنْوًا فِيهِ الْحَشَفُ يَظُنُّ أَنَّهُ جَائِزٌ فِي کَثْرَةِ مَا يُوضَعُ مِنْ الْأَقْنَائِ فَنَزَلَ فِيمَنْ فَعَلَ ذَلِکَ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ يَقُولُ لَا تَعْمِدُوا لِلْحَشَفِ مِنْهُ تُنْفِقُونَ وَلَسْتُمْ بِآخِذِيهِ إِلَّا أَنْ تُغْمِضُوا فِيهِ يَقُولُ لَوْ أُهْدِيَ لَکُمْ مَا قَبِلْتُمُوهُ إِلَّا عَلَی اسْتِحْيَائٍ مِنْ صَاحِبِهِ غَيْظًا أَنَّهُ بَعَثَ إِلَيْکُمْ مَا لَمْ يَکُنْ لَکُمْ فِيهِ حَاجَةٌ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنْ صَدَقَاتِکُمْ
احمد بن محمد بن یحییٰ بن سعید قطان، عمرو بن محمد عنقزی، اسباط بن نصر، سدی، عدی بن ثابت، براء بن عازب فرماتے ہیں کہ (وَمِمَّا اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيْثَ مِنْهُ تُنْفِقُوْنَ ) 2۔ البقرۃ : 267) انصار کے بارے میں نازل ہوئی جب کھجور کی کٹائی کا وقت آتا تو اپنے باغوں سے کھجور کے خوشے توڑ کر مسجد نبوی میں دو ستونوں کے درمیان بندھی ہوئی رسی پر لٹکا دیتے اسے فقراء مہاجرین کھا لیتے تو کوئی ایسا بھی کر دیتا کہ ان میں ردی کھجور کا خوشہ ملا دیتا اور یہ سمجھتا کہ اتنے بہت سے خوشوں میں یہ بھی جائز ہے۔ تو ایسا کرنے والوں سے متعلق یہ آیت (وَمِمَّا اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيْثَ مِنْهُ تُنْفِقُوْنَ ) 2۔ البقرۃ : 267) یعنی خراب اور ردی کھجور دینے کا ارادہ نہ کرو تم اسے خرچ تو کر دیتے ہو لیکن اگر تمہیں ایسا ردی مال کوئی دے تو ہرگز نہ لو مگر چشم پوشی کر کے یعنی اگر ایسا خراب مال تمہیں تحفہ میں دیا جائے تو تم اسے قبول نہ کرو مگر تحفہ بھیجنے والے سے شرم کر کے لے لو اور تمہیں اس پر غصہ بھی ہو کہ اس نے تمہیں ایسی چیز بھیجی جس کی تمہیں کوئی حاجت نہیں اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے صدقات سے بے پرواہ ہے۔
It was narrated that Barâ’ bin ‘Azib said concerning the Verse: “And of that which We have produced from the earth for you, and do not aim at that which is bad to spend from it.” “This was revealed concerning the Ansar. At the time of the new date-palm harvest, they would take a bunch of dates that were beginning to ripen and hang it on a rope between two of the pillars in the mosque of the Messenger of Allah P.B.U.H, and the poor Emigrants would eat from it. One of them deliberately mixed a bunch containing rotten and shriveled dates, and thought that this was permissible because of the large number of dates that had been put there. So the following was revealed about the one who did that: ‘…and do not aim at that which is bad to spend from it’. Meaning do not seek out the rotten and shriveled dates to give in charity: ‘…(though) you would not accept it save if you close your eyes and tolerate therein.’ Meaning, if you were given this as a gift you would only accept it because you felt embarrassed, and you would be angry that he had sent you something of which you have no need. And know that Allah has no need of your charity.” (Hasan)