جامع ترمذی ۔ جلد دوم ۔ قرآن کی تفسیر کا بیان ۔ حدیث 999

باب تفسیر سورت مائدہ

راوی: حسن بن احمد بن ابی شعیب حرانی , محمد بن سلمة حرانی , محمد بن اسحاق , ابونضر , باذان مولی ام ہانی , ابن عباس

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي شُعَيْبٍ الْحَرَّانِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْحَرَّانِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ أَبِي النَّضْرِ عَنْ بَاذَانَ مَوْلَی أُمِّ هَانِئٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ فِي هَذِهِ الْآيَةِ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِکُمْ إِذَا حَضَر أَحَدَکُمْ الْمَوْتُ قَالَ بَرِئَ مِنْهَا النَّاسُ غَيْرِي وَغَيْرَ عَدِيَّ بْنِ بَدَّائٍ وَکَانَا نَصْرَانِيَّيْنِ يَخْتَلِفَانِ إِلَی الشَّامِ قَبْلَ الْإِسْلَامِ فَأَتَيَا الشَّامَ لِتِجَارَتِهِمَا وَقَدِمَ عَلَيْهِمَا مَوْلًی لِبَنِي هَاشِمٍ يُقَالُ لَهُ بُدَيْلُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ بِتِجَارَةٍ وَمَعَهُ جَامٌ مِنْ فِضَّةٍ يُرِيدُ بِهِ الْمَلِکَ وَهُوَ عُظْمُ تِجَارَتِهِ فَمَرِضَ فَأَوْصَی إِلَيْهِمَا وَأَمَرَهُمَا أَنْ يُبَلِّغَا مَا تَرَکَ أَهْلَهُ قَالَ تَمِيمٌ فَلَمَّا مَاتَ أَخَذْنَا ذَلِکَ الْجَامَ فَبِعْنَاهُ بِأَلْفِ دِرْهَمٍ ثُمَّ اقْتَسَمْنَاهُ أَنَا وَعَدِيُّ بْنُ بَدَّائٍ فَلَمَّا قَدِمْنَا إِلَی أَهْلِهِ دَفَعْنَا إِلَيْهِمْ مَا کَانَ مَعَنَا وَفَقَدُوا الْجَامَ فَسَأَلُونَا عَنْهُ فَقُلْنَا مَا تَرَکَ غَيْرَ هَذَا وَمَا دَفَعَ إِلَيْنَا غَيْرَهُ قَالَ تَمِيمٌ فَلَمَّا أَسْلَمْتُ بَعْدَ قُدُومِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ تَأَثَّمْتُ مِنْ ذَلِکَ فَأَتَيْتُ أَهْلَهُ فَأَخْبَرْتُهُمْ الْخَبَرَ وَأَدَّيْتُ إِلَيْهِمْ خَمْسَ مِائَةِ دِرْهَمٍ وَأَخْبَرْتُهُمْ أَنَّ عِنْدَ صَاحِبِي مِثْلَهَا فَأَتَوْا بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُمْ الْبَيِّنَةَ فَلَمْ يَجِدُوا فَأَمَرَهُمْ أَنْ يَسْتَحْلِفُوهُ بِمَا يُقْطَعُ بِهِ عَلَی أَهْلِ دِينِهِ فَحَلَفَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِکُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَکُمْ الْمَوْتُ إِلَی قَوْلِهِ أَوْ يَخَافُوا أَنْ تُرَدَّ أَيْمَانٌ بَعْدَ أَيْمَانِهِمْ فَقَامَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ وَرَجُلٌ آخَرُ فَحَلَفَا فَنُزِعَتْ الْخَمْسُ مِائَةِ دِرْهَمٍ مِنْ عَدِيِّ بْنِ بَدَّائٍ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِصَحِيحٍ وَأَبُو النَّضْرِ الَّذِي رَوَی عَنْهُ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ هَذَا الْحَدِيثَ هُوَ عِنْدِي مُحَمَّدُ بْنُ السَّائِبِ الْکَلْبِيُّ يُکْنَی أَبَا النَّضْرِ وَقَدْ تَرَکَهُ أَهْلُ الْعِلْمِ بِالْحَدِيثِ وَهُوَ صَاحِبُ التَّفْسِيرِ سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ يَقُولُ مُحَمَّدُ بْنُ السَّائِبِ الْکَلْبِيُّ يُکْنَی أَبَا النَّضْرِ وَلَا نَعْرِفُ لِسَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ الْمَدَنِيِّ رِوَايَةً عَنْ أَبِي صَالِحٍ مَوْلَی أُمِّ هَانِئٍ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ شَيْئٌ مِنْ هَذَا عَلَی الِاخْتِصَارِ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ

حسن بن احمد بن ابی شعیب حرانی، محمد بن سلمة حرانی، محمد بن اسحاق، ابونضر، باذان مولیٰ ام ہانی، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ تمیم داری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت (يٰ اَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ) 5۔ المائدہ : 106) (اے ایمان والو جبکہ تم میں سے کسی کو موت آپہنچے تو وصیت کے وقت درمیان تم میں سے دو معتبر آدمی گواہ ہونے چاہیئں یا تمہارے سوا دو گواہ اور ہوں۔) کے متعلق کہتے ہیں کہ اس سے میرے اور عدی بن بداء کے علاوہ وہ سب لوگ بری ہوگئے۔ یہ دونوں اسلام لانے سے پہلے نصرانی تھے اور شام آتے جاتے رہے تھے۔ ایک مرتبہ وہ دونوں تجارت کیلئے شام گئے تو بنو سہم مولیٰ بدیل بن ابی مریم ان کے پاس تجارت کی غرض سے آیا۔ اس کے پاس چاندی کا ایک جام تھا وہ چاہتا تھا کہ یہ پیالہ بادشاہ کی خدمت میں پیش کرئے وہ اس کے مال میں بری چیز تھی۔ پھر وہ بیمار ہوگیا اور اس نے ان دونوں کو وصیت کی اور کہا کہ اس نے جو کچھ چھوڑا اسے اس کے مالکوں تک پہنچا دیں۔ تمیم کہتے ہیں جب وہ جرگیا تو ہم نے وہ پیالہ ایک ہزار درہم میں بیچ ڈالا اور رقم دونوں نے آپس میں تقسیم کر لی۔ ان کے گھر پہنچ کر ہم نے وہ سامان ان کے حوالے کر دیا۔ انہیں پیالہ نہ ملا۔ تو انہوں نے ہم سے اس کے متعلق پوچھا۔ ہم نے جواب دیا کہ اس نے یہی کچھ چھاڑا تھا اور ہمیں ان چیزوں کے علاوہ کوئی چیز نہیں دی۔ تمیم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدینہ طیبہ تشریف لانے پر جب میں اسلام لایا تو میں نے اس گناہ کا ازالہ چاہا اور اس غلام کے مالکوں گھر گیا انہیں ساری بات بتائی اور انہیں پانچ سو درھم دے دیئے نیز یہ بھی بتایا کہ اتنی ہی رقم میرے ساتھی کے پاس بھی ہے۔ وہ لوگ عدی کو لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے گواہ طلب کئے جو کہ ان کے پاس نہیں تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ عدی سے اس کے دین کی عظیم ترین چیز کی قسم لیں۔ اس نے قسم کھا لی اور پھر یہ آیت نازل ہوئی (يٰ اَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ) 5۔ المائدہ : 106) چنانچہ عمرو بن عاص اور ایک شخص کھڑے ہوئے اور گواہی کی کہ پیالہ بدیل کے پاس تھا اور عدی جھوٹا ہے تو عدی بن بداء سے پانچ سو درہم چھین لئے گئے۔ یہ حدیث غریب ہے۔ اور اس کی سند صحیح نہیں۔ محمد بن اسحاق سے نقل کرنے والے راوی ابونضر کا نام محمد بن سائب کلبی ہے۔ اہل علم نے ان سے احادیث نقل کرنا ترک کر دیا ہے۔ یہ صاحب تفسیر ہے۔ میں (امام ترمذی) نے امام بخاری سے سنا کہ محمد بن ابی نضر کی ام ہانی کے موسیٰ ابوصالح سے منقول کوئی حدیث نہیں جانتے۔ یہ حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے اس سند کے علاوہ مختصر طور پر منقول ہے۔

Sayyidina Tamim Dari (RA) referred to this verse: "O ye who believe! When death approaches any of you, (take) witnesses among yourselves when making bequests,- two just men of your own (brotherhood) or others from outside if ye are journeying through the earth, and the chance of death befalls you (thus). If ye doubt (their truth), detain them both after prayer, and let them both swear by Allah: "We wish not in this for any worldly gain, even though the (beneficiary) be our near relation: we shall hide not the evidence before Allah: if we do, then behold! the sin be upon us!"(5:106)

He said, Apart from me and Adi ibn Baddah everyone was absioved.’ They had been both ChistiAnas (RA) travelling to and from Syrian before embracing Islam. Once while they went to Syria on a trade journey, the freedom of Banu Sahm Budayl ibn Abu Maryam came to them. He had a silver drinking glass with him which he intended to present to the king this being a precious merchandise. But, he fell ill and instructed the two men to deliver hie legacy to his family. Tamim said, “When he died, we sold the drinking glass for a thousand dirham and divided the proceeds between the two of us, myself and Adi ibn Badda. When we came to his family, we gave them what we had, and they missed the drinking glass. Theyaske4 us about it and we said that he had not left behind anything besides that (which we gave them) and he had not given us anything else. When I embraced Islam after the Prophet’s (SAW) arrival at Madinah, I was overwhelmed with this sin. So, I went to his family and disclosed to them the facts and paid them five hundred dinars telling them that my friend had as much. They took him to Allah’s Messenger (SAW) and he asked to produce witness which they did not have. So he commanded them to ask Adi to swear on the most valuable of his religion. He did take the oath.” Allah revealed the verse:

"O ye who believe! When death approaches any of you, (take) witnesses among yourselves when making bequests,- two just men of your own (brotherhood) or others from outside if ye are journeying through the earth, and the chance of death befalls you (thus). If ye doubt (their truth), detain them both after prayer, and let them both swear by Allah: "We wish not in this for any worldly gain, even though the (beneficiary) be our near relation: we shall hide not the evidence before Allah: if we do, then behold! the sin be upon us!" (5:106)

But if it be discovered that both of them merited the sin (of perjury), then two others shall stand up in their place, from among the nearest of those whose rights were sinned against so they should both swear by Allah (saying), “Certainly our testimony is truer than the testimony of these two, and we shall not have transgressed, for then we would certainly be among the evildoers.” Thus it is more likely that they will bear testimony in its exact form, or else they will fear that after their oaths, other oaths will be admitted in rebuttal of (their) oaths. (5: 106)

So Amr ibn al-Aas stood up as did another man and they each took the oath. The five hundred dinars were taken away from Adi ibn Baddah.

——————————————————————————–

یہ حدیث شیئر کریں