باب سورت نساء کی تفسیر کے بارے میں
راوی: حسن بن احمد بن ابی شعیب ابومسلم حرانی , محمد بن سلمة حرانی , محمد بن اسحاق , عاصم بن عمر بن قتادة
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي شُعَيْبٍ أَبُو مُسْلِمٍ الْحَرَّانِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْحَرَّانِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَتَادَةَ بْنِ النُّعْمَانِ قَالَ کَانَ أَهْلُ بَيْتٍ مِنَّا يُقَالُ لَهُمْ بَنُو أُبَيْرِقٍ بِشْرٌ وَبُشَيْرٌ وَمُبَشِّرٌ وَکَانَ بُشَيْرٌ رَجُلًا مُنَافِقًا يَقُولُ الشِّعْرَ يَهْجُو بِهِ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ يَنْحَلُهُ بَعْضَ الْعَرَبِ ثُمَّ يَقُولُ قَالَ فُلَانٌ کَذَا وَکَذَا قَالَ فُلَانٌ کَذَا وَکَذَا فَإِذَا سَمِعَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِکَ الشِّعْرَ قَالُوا وَاللَّهِ مَا يَقُولُ هَذَا الشِّعْرَ إِلَّا هَذَا الْخَبِيثُ أَوْ کَمَا قَالَ الرَّجُلُ وَقَالُوا ابْنُ الْأُبَيْرِقِ قَالَهَا قَالَ وَکَانُوا أَهْلَ بَيْتِ حَاجَةٍ وَفَاقَةٍ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَالْإِسْلَامِ وَکَانَ النَّاسُ إِنَّمَا طَعَامُهُمْ بِالْمَدِينَةِ التَّمْرُ وَالشَّعِيرُ وَکَانَ الرَّجُلُ إِذَا کَانَ لَهُ يَسَارٌ فَقَدِمَتْ ضَافِطَةٌ مِنْ الشَّامِ مِنْ الدَّرْمَکِ ابْتَاعَ الرَّجُلُ مِنْهَا فَخَصَّ بِهَا نَفْسَهُ وَأَمَّا الْعِيَالُ فَإِنَّمَا طَعَامُهُمْ التَّمْرُ وَالشَّعِيرُ فَقَدِمَتْ ضَافِطَةٌ مِنْ الشَّامِ فَابْتَاعَ عَمِّي رِفَاعَةُ بْنُ زَيْدٍ حِمْلًا مِنْ الدَّرْمَکِ فَجَعَلَهُ فِي مَشْرَبَةٍ لَهُ وَفِي الْمَشْرَبَةِ سِلَاحٌ وَدِرْعٌ وَسَيْفٌ فَعُدِيَ عَلَيْهِ مِنْ تَحْتِ الْبَيْتِ فَنُقِبَتْ الْمَشْرَبَةُ وَأُخِذَ الطَّعَامُ وَالسِّلَاحُ فَلَمَّا أَصْبَحَ أَتَانِي عَمِّي رِفَاعَةُ فَقَالَ يَا ابْنَ أَخِي إِنَّهُ قَدْ عُدِيَ عَلَيْنَا فِي لَيْلَتِنَا هَذِهِ فَنُقِبَتْ مَشْرَبَتُنَا وَذُهِبَ بِطَعَامِنَا وَسِلَاحِنَا قَالَ فَتَحَسَّسْنَا فِي الدَّارِ وَسَأَلْنَا فَقِيلَ لَنَا قَدْ رَأَيْنَا بَنِي أُبَيْرِقٍ اسْتَوْقَدُوا فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ وَلَا نَرَی فِيمَا نَرَی إِلَّا عَلَی بَعْضِ طَعَامِکُمْ قَالَ وَکَانَ بَنُو أُبَيْرِقٍ قَالُوا وَنَحْنُ نَسْأَلُ فِي الدَّارِ وَاللَّهِ مَا نُرَی صَاحِبَکُمْ إِلَّا لَبِيدَ بْنَ سَهْلٍ رَجُلٌ مِنَّا لَهُ صَلَاحٌ وَإِسْلَامٌ فَلَمَّا سَمِعَ لَبِيدٌ اخْتَرَطَ سَيْفَهُ وَقَالَ أَنَا أَسْرِقُ فَوَاللَّهِ لَيُخَالِطَنَّکُمْ هَذَا السَّيْفُ أَوْ لَتُبَيِّنُنَّ هَذِهِ السَّرِقَةَ قَالُوا إِلَيْکَ عَنْهَا أَيُّهَا الرَّجُلُ فَمَا أَنْتَ بِصَاحِبِهَا فَسَأَلْنَا فِي الدَّارِ حَتَّی لَمْ نَشُکَّ أَنَّهُمْ أَصْحَابُهَا فَقَالَ لِي عَمِّي يَا ابْنَ أَخِي لَوْ أَتَيْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَکَرْتَ ذَلِکَ لَهُ قَالَ قَتَادَةُ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ إِنَّ أَهْلَ بَيْتٍ مِنَّا أَهْلَ جَفَائٍ عَمَدُوا إِلَی عَمِّي رِفَاعَةَ بْنِ زَيْدٍ فَنَقَبُوا مَشْرَبَةً لَهُ وَأَخَذُوا سِلَاحَهُ وَطَعَامَهُ فَلْيَرُدُّوا عَلَيْنَا سِلَاحَنَا فَأَمَّا الطَّعَامُ فَلَا حَاجَةَ لَنَا فِيهِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَآمُرُ فِي ذَلِکَ فَلَمَّا سَمِعَ بَنُو أُبَيْرِقٍ أَتَوْا رَجُلًا مِنْهُمْ يُقَالُ لَهُ أُسَيْرُ بْنُ عُرْوَةَ فَکَلَّمُوهُ فِي ذَلِکَ فَاجْتَمَعَ فِي ذَلِکَ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ الدَّارِ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ قَتَادَةَ بْنَ النُّعْمَانِ وَعَمَّهُ عَمَدَا إِلَی أَهْلِ بَيْتٍ مِنَّا أَهْلِ إِسْلَامٍ وَصَلَاحٍ يَرْمُونَهُمْ بِالسَّرِقَةِ مِنْ غَيْرِ بَيِّنَةٍ وَلَا ثَبَتٍ قَالَ قَتَادَةُ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَکَلَّمْتُهُ فَقَالَ عَمَدْتَ إِلَی أَهْلِ بَيْتٍ ذُکِرَ مِنْهُمْ إِسْلَامٌ وَصَلَاحٌ تَرْمِهِمْ بِالسَّرِقَةِ عَلَی غَيْرِ ثَبَتٍ وَلَا بَيِّنَةٍ قَالَ فَرَجَعْتُ وَلَوَدِدْتُ أَنِّي خَرَجْتُ مِنْ بَعْضِ مَالِي وَلَمْ أُکَلِّمْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِکَ فَأَتَانِي عَمِّي رِفَاعَةُ فَقَالَ يَا ابْنَ أَخِي مَا صَنَعْتَ فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اللَّهُ الْمُسْتَعَانُ فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ نَزَلَ الْقُرْآنُ إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاکَ اللَّهُ وَلَا تَکُنْ لِلْخَائِنِينَ خَصِيمًا بَنِي أُبَيْرِقٍ وَاسْتَغْفِرْ اللَّهَ أَيْ مِمَّا قُلْتَ لِقَتَادَةَ إِنَّ اللَّهَ کَانَ غَفُورًا رَحِيمًا وَلَا تُجَادِلْ عَنْ الَّذِينَ يَخْتَانُونَ أَنْفُسَهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ کَانَ خَوَّانًا أَثِيمًا يَسْتَخْفُونَ مِنْ النَّاسِ وَلَا يَسْتَخْفُونَ مِنْ اللَّهِ إِلَی قَوْلِهِ غَفُورًا رَحِيمًا أَيْ لَوْ اسْتَغْفَرُوا اللَّهَ لَغَفَرَ لَهُمْ وَمَنْ يَکْسِبْ إِثْمًا فَإِنَّمَا يَکْسِبُهُ عَلَی نَفْسِهِ إِلَی قَوْلِهِ إِثْمًا مُبِينًا قَوْلَهُ لِلَبِيدٍ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْکَ وَرَحْمَتُهُ إِلَی قَوْلِهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا فَلَمَّا نَزَلَ الْقُرْآنُ أَتَی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالسِّلَاحِ فَرَدَّهُ إِلَی رِفَاعَةَ فَقَالَ قَتَادَةُ لَمَّا أَتَيْتُ عَمِّي بِالسِّلَاحِ وَکَانَ شَيْخًا قَدْ عَشَا أَوْ عَسَی فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَکُنْتُ أُرَی إِسْلَامُهُ مَدْخُولًا فَلَمَّا أَتَيْتُهُ بِالسِّلَاحِ قَالَ يَا ابْنَ أَخِي هُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَعَرَفْتُ أَنَّ إِسْلَامَهُ کَانَ صَحِيحًا فَلَمَّا نَزَلَ الْقُرْآنُ لَحِقَ بُشَيْرٌ بِالْمُشْرِکِينَ فَنَزَلَ عَلَی سُلَافَةَ بِنْتِ سَعْدِ ابْنِ سُمَيَّةَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَمَنْ يُشَاقِقْ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَی وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّی وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَائَتْ مَصِيرًا إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَکَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِکَ لِمَنْ يَشَائُ وَمَنْ يُشْرِکْ بِاللَّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا فَلَمَّا نَزَلَ عَلَی سُلَافَةَ رَمَاهَا حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ بِأَبْيَاتٍ مِنْ شِعْرِهِ فَأَخَذَتْ رَحْلَهُ فَوَضَعَتْهُ عَلَی رَأْسِهَا ثُمَّ خَرَجَتْ بِهِ فَرَمَتْ بِهِ فِي الْأَبْطَحِ ثُمَّ قَالَتْ أَهْدَيْتَ لِي شِعْرَ حَسَّانَ مَا کُنْتَ تَأْتِينِي بِخَيْرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْلَمُ أَحَدًا أَسْنَدَهُ غَيْرَ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَمَةَ الْحَرَّانِيِّ وَرَوَی يُونُسُ بْنُ بُکَيْرٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ مُرْسَلٌ لَمْ يَذْکُرُوا فِيهِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ وَقَتَادَةُ بْنُ النُّعْمَانِ هُوَ أَخُو أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ لِأُمِّهِ وَأَبُو سَعِيدٍ اسْمُهُ سَعْدُ بْنُ مَالِکِ بْنِ سِنَانٍ
حسن بن احمد بن ابی شعیب ابومسلم حرانی، محمد بن سلمة حرانی، محمد بن اسحاق، عاصم بن عمر بن قتادہ، ان کے والد، حضرت قتادہ بن نعمان فرماتے ہیں کہ ہم انصار میں سے ایک گھر والے تھے جنہیں بنوا بیرق کہا جاتا تھا۔ وہ تین بھائی تھے۔ بشر، بشیر، اور مبشر۔ بشیر منافق تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہجو میں اشعار کہا کرتے تھا پھر ان شعروں کو بعض عرب شعراء کی طرف منسوب کر دیتا اور کہتا کہ فلاں نے اس طرح کہا ہے فلاں نے اس طرح کہا ہے جب صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ اشعار سنتے تو کہتے کہ اللہ کی قسم یہ شعر اسی خبیث کے ہیں یا جیسا راوی نے فرمایا۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے کہ ابن ابیرق ہی نے کہے ہیں۔ وہ لوگ زمانہ جاہلیت اور اسلام دونوں میں محتاج اور فقیر تھے مدینہ میں لوگوں کا طعام کھجور اور جو ہی تھا۔ پھر اگر کوئی خوشحال ہوتا تو شام کی طرف سے آنے والے قافلے سے میدہ خریدتا جسے وہ اکیلا ہی کھاتا اس کے گھر والوں کا کھانا کھجوریں اور جو ہی ہوتے۔ ایک مرتبہ شام کی طرف سے ایک قافلہ آیا تو میرے چچا رفاعہ بن زید نے میدےء کا کا ایک بوجھ خریدا اور اسے بالا خانہ میں رکھا جہاں ہتھیار، زرہ اور تلوار بھی تھی۔ (ایک دن) کسی نے ان کے گھر کے نیچے سے نقب لگا کر ان کا میدہ اور ہتھیار وغیرہ چوری کر لئے۔ صبح ہوئی تو چچا رفاعہ آئے اور کہنے لگے بھتیجے آج رات ہم پر ظلم کیا گیا اور ہمارے بالا خانہ سے کھانا اور ہتھیار وغیرہ چوری کر لئے گئے۔ چنانچہ ہم نے اہل محلہ سے پوچھ گچھ کی تو پتہ چلا کہ آج رات بنو ابیراق نے آگ جلائی تھی۔ ہمارا تو یہی خیال ہے کہ انہوں نے تمہارے کسی کھانے پر روشنی کی ہے۔ حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ہیں جس وقت ہم محلے میں پوچھ گچھ کر رہے تھے تو بنو ابیراق کہنے لگے کہ ہمارے خیال میں تمہارا چور لبید بن سہل ہی ہے۔ جو تمہارا دوست ہے وہ صالح شخص تھا اور مسلمان تھا جب لبید نے یہ بات سنی تو اپنی تلوار نکال لی اور کہا کہ میں چوری کرتا ہوں۔ اللہ کی قسم یا تو میری تلوار تم میں پیوست ہوگی یا تم ضرور اس چوری کو ظاہر کرو گے۔ بنوا بیراق کہنے لگے تم اپنی تلوار تک رہو۔ (یعنی ہمیں کچھ نہ کہو) تم نے چوری نہیں کی۔ پھر ہم محلے میں پوچھتے رہے یہاں تک کہ ہمیں یقین ہوگیا کہ یہی بنوا بیراق چور ہیں۔ اس پر میرے چچا نے کہا اے بھتیجے اگر تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاتے اور اس کا ذکر کرتے (تو شاید چیز مل جاتی) حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ہم میں سے ایک گھر والے نے میرے چچا پر ظلم کیا اور نقب لگا کر ان کا غلہ اور ہتھیار وغیرہ لے گئے۔ جہاں تک غلے کا تعلق ہے تو اسی ہمیں حاجت نہیں لیکن ہمارے ہتھیار واپس کر دیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں عنقریب اس کا فیصلہ کروں گا۔ جب بنوا بیراق نے یہ سنا تو اپنی قوم کے ایک شخص اسیر بن عروہ کے پاس آئے اور اس سے اس معاملے میں بات کی پھر اس کیلئے بہت سے لوگ جمع ہوئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قتادہ بن نعمان اور اس کے چچا ہمارے گھر والوں پر بغیر دلیل اور بغیر گواہ کے چوری کی تہمت لگا رہے ہیں جبکہ وہ لوگ نیک اور مسلمان ہیں۔ قتادہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور بات کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم نے کسی مسلمان اور نیک گھرانے پر بغیر کسی گواہ اور دلیل کے چوری کی تہمت لگائی ہے؟ حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں پھر میں واپس ہوا اور سوچا کہ کاش میرا کچھ مال چلا جاتا اور میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس معاملے میں بات نہ کرتا۔ اس دوران میرے چچا آئے اور پوچھا کہ کیا کہا؟ میں نے انہیں بتایا کہ رسوا اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسطرح فرمایا ہے۔ انہوں نے کہا اللہ ہی مددگار ہے۔ پھر زیادہ دیر نہ گزری کہ قرآن کی آیت نازل ہوئی ( اِنَّا اَنْزَلْنَا اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا اَرٰىكَ اللّٰهُ وَلَا تَكُنْ لِّلْخَا ى ِنِيْنَ خَصِيْمًا) 4۔ النساء : 105) (یعنی بے شک ہم نے تیری طرف سچی کتاب اتاری ہے تاکہ تو لوگوں میں انصاف کرے جو تمہیں اللہ سمجھا دے اور تو بددیانت لوگوں کی طرف سے جھگڑنے والا نہ ہو (مراد بنوابیراق) اور اللہ سے بخشش مانگ (یعنی جو بات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قتادہ سے کہی ہے۔) بیشک اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔ النساء۔) پھر فرمایا (وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِيْنَ يَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَھُمْ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا اَثِ يْمًا ١٠٧ ڌ يَّسْتَخْفُوْنَ مِنَ النَّاسِ وَلَا يَسْتَخْفُوْنَ مِنَ اللّٰهِ ) 4۔ النساء : 107) (ترجمہ۔ اور ان لوگوں کی طرف سے مت جھگڑ و جو اپنے دل میں دغا رکھتے ہیں، جو شخص دغا باز گنہگار ہو بے شک اللہ اسے پسند نہیں کرتا۔ یہ لوگ ابسا نو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے چھپتے ہیں اور اللہ سے نہیں چھپتے حالانکہ وہ اس وقت بھی ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ جبکہ رات کو چھپ کر اس کی مرضی کے خلاف مشورے کرتے ہیں اور ان کے سارے اعمال پر اللہ احاطہ کرنے والا ہے۔ ہاں ہم لوگوں نے ان مجرموں کی طرف سے دنیا کی زندگی میں تو جھگڑا کر لیا پھر قیامت کے دن ان کی طرف سے اللہ سے کون جھگڑے گا یا ان کا وکیل کون ہوگا اور جو کوئی برا فعل کرے یا اپنے نفس پر ظلم کرے پھر اس کے بعد اللہ سے بخشوائے تو اللہ کو بخشنے والا مہربان پاوے۔ اور جو کوئی گناہ کرے سو اپنے ہی حق میں کرتا ہے اور اللہ سب باتوں کا جاننے والا حکمت والا ہے۔ اور جو کوئی خطاء یا گناہ کرے پھر کس بے گناہ پر تہت لگا دے تو اس نے بڑے بہتان اور صریح گناہ کا بار سمیٹ لیا۔ النساء) سے ان کی اس بات کی طرف اشارہ ہے جو انہوں نے لبید سے کہی تھی۔ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْکَ وَرَحْمَتُهُ الخ۔ (ترجمہ۔ اور اگر تجھ پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو ان میں سے ایک گروہ نے تمہیں غلط فہمی میں مبتلا کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا تھا حالانکہ وہ اپنے سوا کسی کو غلط فہمی میں مبتلا نہیں کر سکتے تھے۔ اور وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے اور اللہ نے تجھ پر کتاب اور حکمت نازل کی ہے اور تجھے وہ باتیں سکھائیں ہیں جو تو نہ جا نتا تھا اور اللہ کو تجھ پر بڑا فضل ہے۔ (النساء) جب قرآن کی یہ آیات نازل ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ہتھیار لائے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ ہتھیار حضرت رفاعہ کی طرف لوٹا دیئے قتادہ کہتے ہیں کہ جب میں ہتھیار لے کر اپنے چچا کے پاس آیا (ابوعیسی کو شک ہے کہ عشی کہا یا اعسی) ان کی بینائی زمانہ جاہلیت میں کمزور ہوگئی تھی اور بوڑھے ہو چکے تھے۔ میں ان کے ایمان میں کچھ خلل کا گمان کیا کرتا تھا۔ لیکن جب میں ہتھیار وغیرہ لے کر ان کے پاس گیا تو کہنے لگے بھتیجے یہ میں نے اللہ کی راہ میں دے دیئے ہیں۔ چانچہ مجھے ان کے ایمان کا یقین ہوگیا۔ جب قرآن کی آیات نازل ہوئیں تو بشیر مشرکین کے ساتھ مل گیا اور سلا فہ بنت سعد بن سمیہ کے پاس ٹھہرا پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی (وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّه مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِه جَهَنَّمَ وَسَا ءَتْ مَصِيْرًا ١١٥ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِه وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَا ءُ وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلً ا بَعِيْدًا) 4۔ النساء : 115)۔ (ترجمہ۔ اور جو کوئی رسول اللہ کی مخالفت کرے، بعد اس کے کہ اس پر سیدھی راہ کھل چکی ہو اور سب مسلمانوں کے راستہ کے خلاف چلے تو ہم اسے اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ کود پھر گیا ہے اور اسے دوزخ میں دالیں گے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔ بے شک اللہ اس کو نہیں بخشتا جو کسی کو اس کا شریک بنائے۔ اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دے اور جس نے اللہ کا شریک ٹھہرایا، وہ بڑی دور کی گمراہی میں جا پڑا۔ النساء) جب وہ سلافہ کے پاس ٹھہرا تو حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چند شعروں میں سلافہ کی ہجو کی۔ چنانچہ سلافہ نے بشیر کا سامان اٹھا کر سر پر رکھا اور اسے باہر جا کر میدان میں پھینک دیا پھر اس سے کہنے لگی کہ کیا تو میرے پاس حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شعر ہدیئے میں لایا ہے۔ تجھ سے مجھے کبھی خیر نہیں مل سکتی۔ یہ حدیث غریب ہے۔ ہمیں علم نہیں کہ اس حدیث کو محمد بن قتادہ سلمہ خزانی کے علاوہ کسی اور نے مرفوع کیا ہو۔ یونس بن بکیر اور کئی راوی اسے محمد بن اسحاق سے اور وہ عاصم بن قتادہ سے مرسلاً نقل کرتے ہیں۔ اس میں عاسم کے اپنے والد اور دادا کا واسطہ مذکور نہیں۔ قتاسہ بن نعمان، ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اخیانی (ماں کی طرف سے) بھائی ہیں۔ ابوسعید کا نام مالک بن سنان ہے۔
Qatadah ibn Numan narrated: There was among us (Ansar) a family called Banu UbayriqBishr, Bushayr and Muhashshir. Bushayr was a hypocrite who read poetry whereby he defamed the sahahah hut he attributed his poetry to earlier Arab poets saying such and such had composed it. The sahahah (RA) on hearing him, said, “By Allah, that poet had not read this poetry. It is only this very evil man who has spoken it” – or as the narrator thought that they said “Ibn Uubayriq has spoken it.’ The people were needy and poor during the jahiliyat and during Islam. The staple food of the people in Madinah was dates and barley. If a man had some means and a Syrian pedlar made the rounds, he would buy from him fine flour exclusively for himself while the family’s meal continued to be dates and barley. Accordingly, when a Syrian pedlar came, my uncle Rifaah ibn Zayd bought from him a bag of fine flour. He placed it in a storeroom where weapons, armour and swords were also kept. Someone made an underground passage and stole his fine flour and weapons, etc. In the morning, my uncle Rifa’ah came and told me about it. I made enquires and learnt that they had seen the sons of Ubayriq with lamps in the night and that they might have done it. Qatadah said that when they made enquries in the house, the children of Ubayriq said, “By Allah, your thief is our pious Muslim Labid ibn Sahi.” When Lahid heard it, he drew his sword and asked, “Am I the thief? By Allah, either my sword pierces you or you disclose the thief.’ The Banu Ubayriq said, Keep your sword to yourself. You have not stolen anything. We then made more enquiries till we were sure that Banu Ubayriq were the thieves. My uncle said, “If you go to the Prophet (SAW) and mention it (perhaps we would get our things).” So, I went to him and recounted my uncle’s plight, saying. ‘We are more concerned about the weapons. He said, “I will decide about it soon.” When Banu Ubayriq heard of it, they went to one of their man, Usayr ibn Urwah and spoke to him about it. Then many people of the neighbourhood gathered for them and pleaded, “O Messenger of Allah (SAW) , Qatadah ibn Nu’man and his uncle have accused our people of theft without argument or evidence though they are pious and Muslim s.” Qatadah said that he went to the Prophet (SAW) and spoke about it and he asked, “Have you accused a Muslim and pious people of theft without proof or evidence?” I wished that I had lost something and not spoken to the Prophet (SAW) about it. Suddenly, my uncle came and asked me what I had done and I told him what Allah’s Messenger (SAW) had said, He submitted. “Allah is our Help.” Not much time had passed when something of the Qur’an was revealed, Allah said:
"Surely, we have revealed the Book to you with truth, so that you may judge between people by means of what Allah has shown you. So be not an advocate of the traitors." (4:105) (That is) Banu Ubayriq: “And seek forgiveness of Allah” (that is) about what you said to Qatadah: "Surely Allah is ever Forgiving, Merciful." "And contend not on behalf of those who betray themselves. Surely Allah loves not one who is treacherous, sinful. They seek to conceal (their evil deeds) from people, but they cannot conceal from Allah, for He is with them…(till Allah’s words) "He shall find Allah Forfgiving, Merciful. (that is) If they seek Allah’s forgiveness, He will forgive them. And whosoever earns a sin, earns it against his own soul only.” (till Allah's words, "And whoever earns fault or a sin and then casts it upon the innocent, he indeed has burdened himself with calumny and manifest sin." (that is) their accusation of Labid. "And were it not for the bounty of Allah upon you (0 Prophet) and His mercy." (till Allah’s words) Allah’s bounty upon you is ever great. (4 : 105 – 144) When these words of the Qur’an were revealed they brought to the Prophet (SAW) the weapons and he returned them to Rifa’ah. Qatadah said, “When I came to my uncle with the weapons” – Abu Eesa is doubtful what word was used or – “he was an old man whose eyesight had become weak during the jahiliyah and I had imagined a weakness in his faith, but when I took the weapons, etc. to him-he said, ‘I have give them in Allah’s path. So, I was convinced of his strong faith.
When the Qur’an was revealed, Bushayr joined the idolators and lodged with Sulafah daughter of Sad ibri Sumayyah. Allah revealed the verse:
And whosoever opposes the Messenger (SAW) after the guidance has become clear to him, and follows a way other then that of the believers, we shall turn him to that to which he has turned, and we shall cast him in Hell; and it is an evil destination. Surely Allah shall not forgive that anything be associated with Him, and He shall forgive all besides that to whom He will. And whosoever
associates anything with Allah, he indeed has gone far astray. (4 : 115 – 116) When he lodged with Sulafah, Hassan composed satirical poetry in answer to him. So, Sulafah carried his luggage on her head and cast them out on an open land, saying. “Have you brought Hassan’s poetry as a gift to me? I can never hope for good from you.”
——————————————————————————–