باب سورت فاتحہ کی تفسیر کے متعلق
راوی: عبد بن حمید , عبدالرحمن بن سعد , عمرو بن ابی قیس , سماک بن حرب , عبداد بن حبیش , عدی بن حاتم
أَخْبَرَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدٍ أَنْبَأَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِي قَيْسٍ عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ عَبَّادِ بْنِ حُبَيْشٍ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ جَالِسٌ فِي الْمَسْجِدِ فَقَالَ الْقَوْمُ هَذَا عَدِيُّ بْنُ حَاتِمٍ وَجِئْتُ بِغَيْرِ أَمَانٍ وَلَا کِتَابٍ فَلَمَّا دُفِعْتُ إِلَيْهِ أَخَذَ بِيَدِي وَقَدْ کَانَ قَالَ قَبْلَ ذَلِکَ إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ يَدَهُ فِي يَدِي قَالَ فَقَامَ فَلَقِيَتْهُ امْرَأَةٌ وَصَبِيٌّ مَعَهَا فَقَالَا إِنَّ لَنَا إِلَيْکَ حَاجَةً فَقَامَ مَعَهُمَا حَتَّی قَضَی حَاجَتَهُمَا ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي حَتَّی أَتَی بِي دَارَهُ فَأَلْقَتْ لَهُ الْوَلِيدَةُ وِسَادَةً فَجَلَسَ عَلَيْهَا وَجَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَی عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ مَا يُفِرُّکَ أَنْ تَقُولَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فَهَلْ تَعْلَمُ مِنْ إِلَهٍ سِوَی اللَّهِ قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ ثُمَّ تَکَلَّمَ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ إِنَّمَا تَفِرُّ أَنْ تَقُولَ اللَّهُ أَکْبَرُ وَتَعْلَمُ أَنَّ شَيْئًا أَکْبَرُ مِنْ اللَّهِ قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ فَإِنَّ الْيَهُودَ مَغْضُوبٌ عَلَيْهِمْ وَإِنَّ النَّصَارَی ضُلَّالٌ قَالَ قُلْتُ فَإِنِّي جِئْتُ مُسْلِمًا قَالَ فَرَأَيْتُ وَجْهَهُ تَبَسَّطَ فَرَحًا قَالَ ثُمَّ أَمَرَ بِي فَأُنْزِلْتُ عِنْدَ رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ جَعَلْتُ أَغْشَاهُ آتِيهِ طَرَفَيْ النَّهَارِ قَالَ فَبَيْنَمَا أَنَا عِنْدَهُ عَشِيَّةً إِذْ جَائَهُ قَوْمٌ فِي ثِيَابٍ مِنْ الصُّوفِ مِنْ هَذِهِ النِّمَارِ قَالَ فَصَلَّی وَقَامَ فَحَثَّ عَلَيْهِمْ ثُمَّ قَالَ وَلَوْ صَاعٌ وَلَوْ بِنِصْفِ صَاعٍ وَلَوْ بِقَبْضَةٍ وَلَوْ بِبَعْضِ قَبْضَةٍ يَقِي أَحَدُکُمْ وَجْهَهُ حَرَّ جَهَنَّمَ أَوْ النَّارِ وَلَوْ بِتَمْرَةٍ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ فَإِنَّ أَحَدَکُمْ لَاقِي اللَّهَ وَقَائِلٌ لَهُ مَا أَقُولُ لَکُمْ أَلَمْ أَجْعَلْ لَکَ سَمْعًا وَبَصَرًا فَيَقُولُ بَلَی فَيَقُولُ أَلَمْ أَجْعَلْ لَکَ مَالًا وَوَلَدًا فَيَقُولُ بَلَی فَيَقُولُ أَيْنَ مَا قَدَّمْتَ لِنَفْسِکَ فَيَنْظُرُ قُدَّامَهُ وَبَعْدَهُ وَعَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ ثُمَّ لَا يَجِدُ شَيْئًا يَقِي بِهِ وَجْهَهُ حَرَّ جَهَنَّمَ لِيَقِ أَحَدُکُمْ وَجْهَهُ النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ فَإِنْ لَمْ يَجِدْ فَبِکَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ فَإِنِّي لَا أَخَافُ عَلَيْکُمْ الْفَاقَةَ فَإِنَّ اللَّهَ نَاصِرُکُمْ وَمُعْطِيکُمْ حَتَّی تَسِيرَ الظَّعِينَةُ فِيمَا بَيْنَ يَثْرِبَ وَالْحِيرَةِ أَوْ أَکْثَرَ مَا تَخَافُ عَلَی مَطِيَّتِهَا السَّرَقَ قَالَ فَجَعَلْتُ أَقُولُ فِي نَفْسِي فَأَيْنَ لُصُوصُ طَيِّيئٍ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ وَرَوَی شُعْبَةُ عَنْ سِمَاکِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ عَبَّادِ بْنِ حُبَيْشٍ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ
عبد بن حمید، عبدالرحمن بن سعد، عمرو بن ابی قیس، سماک بن حرب، عبداد بن حبیش، حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے۔ لوگوں نے عرض کیا یہ عدی بن حاتم ہیں۔ میں کسی امان اور تحریر کے بغیر آ گیا تھا۔ جب مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے جایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے ہی صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے کہ چکے تھے کہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دیں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے لے کر کھڑے ہوئے تو ایک عورت اور ایک بچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کام ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ساتھ ہو لئے اور ان کا کام کر کے دوبارہ میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے گھر لے گئے۔ ایک بچی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بچھونا بچھا دیا جس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھ گئے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کی حمدوثناء بیان کرنے کے بعد مجھ سے پوچھا کہ تمہیں لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہنے سے کونسی چیز روکتی ہے۔ کیا تم اللہ کے علاوہ کسی معبود کو جانتے ہو۔ میں نے عرض کیا نہیں۔ پھر کچھ دیر باتیں کرتے رہے پھر فرمایا تم اس لئے اللَّهُ أَکْبَرُ کہے سے راہ فرار اختیار کرتے ہو کہ تم اس سے بڑی چیز جا نتے ہو؟ میں نے عرض کیا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہودیوں پر اللہ کا غضب ہے اور نصاری گمراہ ہیں۔ عدی کہتے ہیں پھر میں نے کہا کہ میں خالص مسلمان ہوں۔ عدی کہتے ہیں پھر میں نے دیکھا کہ (یہ سن کر) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے حکم دیا اور میں ایک انصاری کے ہاں (بطور مہمان) رہنے لگا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں صبح و شام حاضر ہونے لگا۔ ایک دن رات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھا کی ایک قوم آئی۔ انہوں نے اون کی دھاری دار کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز پڑھی اور خطبہ دیتے ہوئے انہیں صدقہ دینے کی ترغیب دی اور فرمایا اگرچہ ایک صاع ہو یا نصف ہو یا مٹھی ہو یا اس سے بھی کم ہو۔ تم میں سے ہر ایک (کو چاہیے کہ) اپنے چیر کو جہنم کی آگ کی گرمی یا اس کی آگ سے بچانے کی کوشش کرے خواہ وہ ایک کھجور یا آدھی کھجور دے کر ہی ہو۔ اس لئے کہ ہر شخص کو اللہ سے ملاقات کرنی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اس سے وہی کچھ فرمائے گا کیا میں نے تمہارے کان آنکھیں نہیں بنائیں؟ وہ کہے گا ہاں کیوں نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا میں نے تمہیں مال و اولاد عطاء نہیں کئے۔ وہ کہے گا ہاں کیوں نہیں اللہ تعالیٰ فرمائے گا وہ کہاں ہے جو تم نے اپنے لئے آگے بھیجا تھا پھر وہ اپنے آگے پیچھے اور دائیں بائیں دیکھے گا اور اپنے چہرے لو آگ کی گرمی سے بچانے کے لئے کوئی چیز نہیں پائے گا لہذا تم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو (جہنم کی) آگ سے بچائے چاہے کھجور کے ایک ٹکڑے کے ساتھ ہی ہو۔ اگر یہ بھی نہ ملے تو اچھی بات کے ذریعے ہی بچائے۔ اس لئے کہ میں تم لوگوں کے متعلق فاقے سے نہیں ڈرتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہارا مددگار اور عطاء کرنیوالا ہے یہاں تک کہ (عنقریب ایسا وقت آئے گا کہ) ایک اکیلی عورت مدینہ سے حیرہ تک سفر کرے گی اور اسے اپنی سواری کی چوری کا بھی خوف نہیں ہوگا۔ عدی کہتے ہیں کہ میں دل میں سوچنے لگا کہ اس وقت قبیلہ بنوطئی کے چور کہاں ہوں گے۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اسے صرف سماک بن حرب کی روایت سے جانتے ہیں۔ شعبہ بھی سماک سے وہ عباد بن حبیش سے وہ عدی بن حاتم سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے طویل حدیث نقل کرتے ہیں۔
Adi ibn Hatim (RA) narrated I came to Allah’s Messenger (SAW) while he was sitting in the mosque. The people introduced me, “This is Adi ibri Hatim.” I had come without anyone’s protection or guarantee. When I was presented to him, he held me by ny hand and he had already said : (to his sahabah), “I hope that Allah will give his hand in mine.” Then he stood up with me. A woman who had a child with her met him. They said, “We have a petition for you.” He stood with them till he had disposed of their petition. Then he held my hand till he took me to his home. A young girl spread out a mat for him and he sat on it while I sat by him. He praised and glorified Allah and asked me what made me run away from saying “Do you know of any God besides Allah?” I said, “No.” Then he talked for some time and asked. “What makes you runaway from saying (Allah is the Greatest)? Do you know of anything greater than Allah?” I said, “No.’ He said, ‘The Jews are the ones on whom is the wrath while the Christianshave gone astray.” I interrupted. “But, I am an upright Muslim !” I observed his face glow with pleasure. Then he instructed me and I lodged at (the house of) an Ansar man and visited him (the Prophet (SAW) ) at the two ends of the day. One evening, while I was with him, some people came to him. They wore woollen striped garments. He offered salah and stood up and motivated them to pay sadaqah. He said: (Give) even a sa’, or half a sa’, or a handful, or a part of it – and, so let each of you protect his face from the heat of Hell or the Fire itself, even a piece of date, or a part of it. Each of you is to meet Allah and it will be said to him – what I say to you now – ‘Did I not give you wealth and children?’ He will say, ‘Certainly (you did).’ He will ask, ‘Where is that which you ought to have sent forward for yourself?’ He will look for it in front of him, behind him, to his right and to his left, but find nothing with which he might save his face from the heat of Hell. Each of you must protect his face from the Fire even with half-a-date, and if he does not find it then with a good word. I do not fear over you hunger, for, Allah is your Help and Support and Bestower till a solitary woman travels between Yathrib (Madinah) and Hirah, not fearing loss of her animal to highwaymen.” I said to myself. “Where are the robbers of Tayyi?”
[Ahmed 19398)