اس کے متعلق کہ حضرت جبرئیل نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایمان واسلام کی کیا صفات بیان کیں
راوی: ابوعمار حسین بن حریث خزاعی , وکیع , کہمس بن حسن , عبداللہ بن بریدہ , یحیی بن یعمر
حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ الْخُزَاعِيُّ أَخْبَرَنَا وَکِيعٌ عَنْ کَهْمَسِ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ يَحْيَی بْنِ يَعْمَرَ قَالَ أَوَّلُ مَنْ تَکَلَّمَ فِي الْقَدَرِ مَعْبَدٌ الْجُهَنِيُّ قَالَ فَخَرَجْتُ أَنَا وَحُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيُّ حَتَّی أَتَيْنَا الْمَدِينَةَ فَقُلْنَا لَوْ لَقِينَا رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلْنَاهُ عَمَّا أَحْدَثَ هَؤُلَائِ الْقَوْمُ قَالَ فَلَقِينَاهُ يَعْنِي عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ وَهُوَ خَارِجٌ مِنْ الْمَسْجِدِ قَالَ فَاکْتَنَفْتُهُ أَنَا وَصَاحِبِي قَالَ فَظَنَنْتُ أَنَّ صَاحِبِي سَيَکِلُ الْکَلَامَ إِلَيَّ فَقُلْتُ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنَّ قَوْمًا يَقْرَئُونَ الْقُرْآنَ وَيَتَقَفَّرُونَ الْعِلْمَ وَيَزْعُمُونَ أَنْ لَا قَدَرَ وَأَنَّ الْأَمْرَ أُنُفٌ قَالَ فَإِذَا لَقِيتَ أُولَئِکَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنِّي مِنْهُمْ بَرِيئٌ وَأَنَّهُمْ مِنِّي بُرَئَائُ وَالَّذِي يَحْلِفُ بِهِ عَبْدُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ أَحَدَهُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا قُبِلَ ذَلِکَ مِنْهُ حَتَّی يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ قَالَ ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُ فَقَالَ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ کُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَائَ رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعَرِ لَا يُرَی عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ حَتَّی أَتَی النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَلْزَقَ رُکْبَتَهُ بِرُکْبَتِهِ ثُمَّ قَالَ يَا مُحَمَّدُ مَا الْإِيمَانُ قَالَ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِکَتِهِ وَکُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ قَالَ فَمَا الْإِسْلَامُ قَالَ شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَإِقَامُ الصَّلَاةِ وَإِيتَائُ الزَّکَاةِ وَحَجُّ الْبَيْتِ وَصَوْمُ رَمَضَانَ قَالَ فَمَا الْإِحْسَانُ قَالَ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ کَأَنَّکَ تَرَاهُ فَإِنَّکَ إِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاکَ قَالَ فِي کُلِّ ذَلِکَ يَقُولُ لَهُ صَدَقْتَ قَالَ فَتَعَجَّبْنَا مِنْهُ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ قَالَ فَمَتَی السَّاعَةُ قَالَ مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنْ السَّائِلِ قَالَ فَمَا أَمَارَتُهَا قَالَ أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا وَأَنْ تَرَی الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ أَصْحَابَ الشَّائِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ قَالَ عُمَرُ فَلَقِيَنِي النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِکَ بِثَلَاثٍ فَقَالَ يَا عُمَرُ هَلْ تَدْرِي مَنْ السَّائِلُ ذَاکَ جِبْرِيلُ أَتَاکُمْ يُعَلِّمُکُمْ مَعَالِمَ دِينِکُمْ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ أَخْبَرَنَا کَهْمَسُ بْنُ الْحَسَنِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ عَنْ کَهْمَسٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ وَفِي الْبَاب عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ وَأَنَسِ بْنِ مَالِکٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ نَحْوُ هَذَا عَنْ عُمَرَ وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالصَّحِيحُ هُوَ ابْنُ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ
ابوعمار حسین بن حریث خزاعی، وکیع، کہمس بن حسن، عبداللہ بن بریدہ، حضرت یحیی بن یعمر کہتے ہیں کہ معبد جہنی پہلا شخص ہے جس نے سب سے پہلے تقدیر کے متعلق گفتگو کی۔ یحیی کہتے ہیں کہ میں اور حمید بن عبدالرحمن حمیری مدینہ کی طرف نکلے تاکہ کسی صحابی سے ملاقات کر کے اس نئے مسئلے کی تحقیق کریں۔ چنانچہ ہم نے عبداللہ بن عمر سے ملاقات کی اور جبکہ وہ مسجد سے نکل رہے تھے کہ میں نے اور میرے ساتھی نے انہیں گھیر لیا۔ میں نے کہا اے عبدالرحمن کے باپ کچھ لوگ ایسے جو قرآن بھی پڑھتے ہیں اور علم بھی سیکھتے ہیں ان کا خیال ہے کہ تقدیر کوئی چیز نہیں اور حکم بروقت ہوتا ہے۔ حضرت ابن عمر نے فرمایا جب ان سے ملاقات ہو تو کہہ دینا کہ میں ان سے اور وہ مجھ سے بری ہیں۔ اس ذات کی قسم جس کی قسم عبداللہ کھاتا رہتا ہے اگر یہ لوگ احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کر دیں تو جب تک تقدیر کے خیروشر پر ایمان نہ لائیں، قبول نہ ہوگا۔ یحیی کہتے ہیں پھر عبداللہ حدیث بیان کرنے لگے اور فرمایا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے کہ ایک شخص آیا جس کے کپڑے انتہائی سفید اور بال بالکل سیاہ تھے نہ تو اس پر سفر کی کوئی علامت تھی اور نہ ہی ہم اسے جانتے تھے یہاں تک کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زانوؤں سے زانو ملا کر بیٹھ گیا۔ پھر کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایمان کی حقیقت یہ ہے تم اللہ تعالی، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، آخرت کے دن اور تقدیر خیروشر کی تصدیق کرو۔ اس نے پوچھا اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوة ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔ اس نے پوچھا احسان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو (یعنی خشوع وخضوع کے ساتھ) اس لئے کہ اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تو یقینا تمہیں دیکھ رہا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ وہ ہر بات پوچھنے کے بعد کہتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سچ فرمایا۔ جس پر ہمیں حیرانگی ہوئی کہ پوچھتا بھی خود ہے اور پھر تصدیق بھی کرتا ہے۔ پھر اس نے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس سے پوچھا جا رہا ہے وہ اس کے متعلق سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔ پھر اس نے سوال کیا کہ قیامت کی نشانیاں کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا لونڈی اپنے مالک کو جنے گی اور تم دیکھو گے کہ ننگے پاؤں اور ننگے جسم والے اور محتاج چروا ہے لمبی لمبی عمارتیں بنانے لگیں گے۔ حضرت عمر فرماتے ہیں کہ پھر میری نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تین دن بعد ملاقات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کہ عمر ! جانتے ہو وہ سوال کرنے والا کون تھا؟ جبرائیل علیہ السلام تھے جو تمہیں دینی امور سکھانے کے لئے آئے تھے۔ ہم سے روایت کیا احمد بن محمد نے انہوں نے ابن مبارک سے وہ کہمس بن حسن سے اسی سند سے اسی کی مانند حدیث نقل کرتے ہیں۔ محمد بن مثنی بھی معاذ بن ہشام سے اور وہ کہمس سے اسی سند سے اسی کے ہم معنی حدیث بیان کرتے ہیں۔ اس باب میں طلحة بن عبیداللہ، انس بن مالک اور ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی روایت ہے۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور کئی سندوں سے اسی طرح منقول ہیں۔ پھر یہ حدیث ابن عمر سے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے منقول ہے جبکہ صحیح یہی ہے کہ ابن عمر (اپنے والد) حضرت عمر سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔
Yahya ibn Yamur reported that the first person who spoke about Divine decree M'bad Juhanni. He said that he and Humayd ibn Abdur Rahman Himyari set out for Madinah hoping to meet one of the sahabah of the Prophet (SAW) that they may ask him about the innovation of these people. They met him meaning, Abdullah ibn Umar (RA) (RA) while he was outside the mosque. (He went on to say:) I and my friend stood by him. I presumed that my friend left me to speak, so I said, “O Abu Abdur Rahman. Certain people recite the Qur’an and acquire knowledge, but are convinced that there is no predestination and they hold that fate is not decreed aforehand. ‘Ibn Umar (RA) said, “When you meet them, let them know that I am absolved of them, and they are absolved of me. By Him on whom Abdullah swears often if they give away gold as much as Uhud, it would not be accepted from them till they believe in destiny, good and bad.” Then he began to narrate Hadtih saying that Umar (RA) ibn al-Khattab (RA) said that they were with Allah’s Messenger (SAW) when a man came wearing extremely white clothing and deep black hair but signs of a journey could not be detected on him nor could they recognise him as one of them. He came to the Prophet (SAW) and sat down beside him, his knees touching the Prophet’s (SAW). He asked “O Muhammad, what is faith”? He said, “It is to believe in Allah, His angels, His Books, His Messengers (peace be upon them all), in the Last Day and in Predestination of good and evil.” He asked, “And what is Islam?” He said, ‘It is. to testify that there is no God but Allah and that Muhammad is His slave and His Messenger (SAW) to establish the Salah, to pay the Zakah, to perform pilgrimage of the House and to fast in Ramadan.’ He asked, “And what is Ihsan”? He said, It is that you worship Allah as though you see Him, for it you cannot see Him, He sees you.” The visitor remarked, “In everything that you have spoken, you spoke truth.” Umar (RA) said that they were surprised at his questioning him and then confirming that he spoke the truth. Next, he asked, “And when is the Hour?” He said, “The one who is questioned does not know more about it than the one who asks.” He asked, “Then what are its Signs?” He said, “That a maid-servant will beget her mistress and that you see barefooted, naked-bodied, helpless shepherds construct tall buildings.” Umar (RA) said that the Prophet (SAW) then met him after three days and said, “Umar (RA) , do you know who the questioner was? He was Jibril come to teach you the basics of your religion.”
[Muslim 8, Abu Dawud 4695,Nisai 5005,Ibn Majah 63,Ahmed 184]
——————————————————————————–