حدیث کی علتوں اور راویوں کی جرح اور تعدیل کے بارے میں
راوی: محمود بن غیلان , یحیی بن آدم , سفیان ثوری , حکیم بن جبیر , عبداللہ بن عثمان , شعبہ
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ آدَمَ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ حَکِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ بِحَدِيثِ الصَّدَقَةِ قَالَ يَحْيَی بْنُ آدَمَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ صَاحِبُ شُعْبَةَ لِسُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ لَوْ غَيْرُ حَکِيمٍ يُحَدِّثُ بِهَذَا فَقَالَ لَهُ سُفْيَانُ وَمَا لِحَکِيمٍ لَا يُحَدِّثُ عَنْهُ شُعْبَةُ أَال نَعَمْ فَقَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ سَمِعْتُ زُبَيْدًا يُحَدِّثُ بِهَذَا عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَقَالَ أَبُو عِيسَی وَمَا ذَکَرْنَا فِي هَذَا الْکِتَابِ حَدِيثٌ حَسَنٌ فَإِنَّمَا أَرَدْنَا بِهِ حُسْنَ إِسْنَادِهِ عِنْدَنَا کُلُّ حَدِيثٍ يُرْوَی لَا يَکُونُ فِي إِسْنَادِهِ مَنْ يُتَّهَمُ بِالْکَذِبِ وَلَا يَکُونُ الْحَدِيثُ شَاذًّا وَيُرْوَی مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ نَحْوَ ذَاکَ فَهُوَ عِنْدَنَا حَدِيثٌ حَسَن ٌوَمَا ذَکَرْنَا فِي هَذَا الْکِتَابِ حَدِيثٌ غَرِيبٌ فَإِنَّ أَهْلَ الْحَدِيثِ يَسْتَغْرِبُونَ الْحَدِيثَ لِمَعَانٍ رُبَّ حَدِيثٍ يَکُونُ غَرِيبًا لَا يُرْوَی إِلَّا مِنْ وَجْهٍ وَاحِدٍ مِثْلُ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ أَبِي الْعُشَرَائِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَمَا تَکُونُ الذَّکَاةُ إِلَّا فِي الْحَلْقِ وَاللِّبَّةِ فَقَالَ لَوْ طَعَنْتَ فِي فَخِذِهَا أَجْزَأَ عَنْکَ فَهَذَا حَدِيثٌ تَفَرَّدَ بِهِ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ أَبِي الْعُشَرَائِ وَلَا يُعْرَفُ لِأَبِي الْعُشَرَائِ عَنْ أَبِيهِ إِلَّا هَذَا الْحَدِيثُ وَإِنْ کَانَ هَذَا الْحَدِيثُ مَشْهُورًا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ فَإِنَّمَا اشْتُهِرَ مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِهِ وَرُبَّ رَجُلٍ مِنْ الْأَئِمَّةِ يُحَدِّثُ بِالْحَدِيثِ لَا يُعْرَفُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِهِ وَيَشْتَهِرُ الْحَدِيثُ لِکَثْرَةِ مَنْ رَوَی عَنْهُ مِثْلُ مَا رَوَی عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَی عَنْ بَيْعِ الْوَلَائِ وَعَنْ هِبَتِهِ وَهَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ رَوَاهُ عَنْهُ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ وَشُعْبَةُ وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَمَالِکُ بْنُ أَنَسٍ وَابْنُ عُيَيْنَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الْأَئِمَّةِ وَرَوَی يَحْيَی بْنُ سُلَيْمٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ فَوَهِمَ فِيهِ يَحْيَی بْنُ سُلَيْمٍ وَالصَّحِيحُ هُوَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ هَکَذَا رَوَی عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَرَوَی الْمُؤَمِّلُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ شُعْبَةَ فَقَالَ شُعْبَةُ لَوَدِدْتُ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ دِينَارٍ أَذِنَ لِي حَتَّی کُنْتُ أَقُومُ إِلَيْهِ فَأُقَبِّلُ رَأْسَهُ قَالَ أَبُو عِيسَی وَرُبَّ حَدِيثٍ إِنَّمَا يُسْتَغْرَبُ لِزِيَادَةٍ تَکُونُ فِي الْحَدِيثِ وَإِنَّمَا يَصِحُّ إِذَا کَانَتْ الزِّيَادَةُ مِمَّنْ يُعْتَمَدُ عَلَی حِفْظِهِ مِثْلُ مَا رَوَی مَالِکُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَکَاةَ الْفِطْرِ مِنْ رَمَضَانَ عَلَی کُلِّ حُرٍّ أَوْ عَبْدٍ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَی مِنْ الْمُسْلِمِينَ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ قَالَ وَزَادَ مَالِکٌ فِي هَذَا الْحَدِيثِ مِنْ الْمُسْلِمِينَ وَرَوَی أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الْأَئِمَّةِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَلَمْ يَذْکُرُوا فِيهِ مِنْ الْمُسْلِمِينَ وَقَدْ رَوَی بَعْضُهُمْ عَنْ نَافِعٍ مِثْلَ رِوَايَةِ مَالِکٍ مِمَّنْ لَا يُعْتَمَدُ عَلَی حِفْظِهِ وَقَدْ أَخَذَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الْأَئِمَّةِ بِحَدِيثِ مَالِکٍ وَاحْتَجُّوا بِهِ مِنْهُمْ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ قَالَا إِذَا کَانَ لِلرَّجُلِ عَبِيدٌ غَيْرُ مُسْلِمِينَ لَمْ يُؤَدِّ عَنْهُمْ صَدَقَةَ الْفِطْرِ وَاحْتَجَّا بِحَدِيثِ مَالِکٍ فَإِذَا زَادَ حَافِظٌ مِمَّنْ يُعْتَمَدُ عَلَی حِفْظِهِ قُبِلَ ذَلِکَ عَنْهُ وَرُبَّ حَدِيثٍ يُرْوَی مِنْ أَوْجُهٍ کَثِيرَةٍ وَإِنَّمَا يُسْتَغْرَبُ لِحَالِ الْإِسْنَادِ
محمود بن غیلان، یحیی بن آدم، سفیان ثوری، حکیم بن جبیر، عبداللہ بن عثمان، شعبہ ہم سے روایت کی محمود بن غیلان نے انہوں نے یحیی بن آدم سے وہ سفیان ثوری سے اور وہ حکیم بن جبیر سے صدقہ کے متعلق حدیث نقل کرتے ہیں۔ یحیی بن آدم کہتے ہیں کہ پھر شعبہ کے دوست عبداللہ بن عثمان نے سفیان ثوری سے کہا کاش کہ حکیم کے علاوہ بھی کوئی شخص یہ حدیث بیان کرتا سفیان نے ان سے پوچھا کہ حکیم کون ہے؟ کیا شعبہ ان سے راویات نہیں۔ عبداللہ نے کہا ہاں ہیں۔ اس پر سفیان ثوری نے فرمایا میں نے یہ حدیث زبیدہ سے بھی سنی وہ محمد بن عبدالرحمن بن یزید سے روایت کرتے ہیں۔ امام عیسیٰ ترمذی فرماتے ہیں کہ ہم نے اس کتاب میں جو لکھا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے تو اس سے ہماری مراد ہے کہ اس کی سند حسن ہے۔ ہر وہ مروی حدیث جس کی سند میں کوئی متہم بالکذب نہ ہو، وہ حدیث شاذ نہ ہو اور متعدد طرق سے مروی ہو وہ ہمارے نزدیک (حدیث) حسن ہے۔ اور جس حدیث کو ہم نے (امام ترمذی نے) غریب کہا ہے تو محدثین مختلف وجوہات کی بنا پر اسے غریب کہتے ہیں۔ چنانچہ بہت سی احادیث صرف ایک سند سے مذکور ہونے کی وجہ سے غریب کہلاتی ہیں۔ جیسے حماد بن سلمہ کی ابوعشراء سے منقول حدیث وہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا حلق اور لبہ (سینہ کا بالائی حصہ) کے علاوہ ذبح جائز نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر تم نے اس کی ران میں مارا تو یہ بھی کافی ہے اس حدیث کو صرف حماد نے ابوعشراء سے نقل کیا ہے اور ان کی اس کے علاوہ کوئی حدیث معروف نہیں۔ چنانچہ یہ حدیث حماد بن سلمہ کی روایت سے مشہور ہے۔ ہم اسے صرف انہی کی سند سے جانتے ہیں۔ اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی امام ایک حدیث روایت کرتا ہے جو صرف اسی کی پہچانی جاتی ہے لیکن چونکہ اس سے بہت سے راوی روایت کرتے ہیں۔ اس لئے مشہور ہو جاتی ہے۔ جیسے عبداللہ بن دینار کی ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے منقول حدیث کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حق ولاء کی خرید و فروخت اور اسے ہبہ کرنے سے منع فرمایا یہ حدیث صرف عبداللہ بن دینار سے معروف اور ان سے عبیداللہ بن عمرو، شعبہ، سفیان ثوری، مالک بن انس اور ابن عینیہ انہی ( عبداللہ بن دینار) سے روایت کرتے ہیں۔ یحیی بن سلیم یہ حدیث عبیداللہ بن عمرو سے وہ نافع سے اور وہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے نقل کرتے ہیں لیکن اس میں انہیں وہم ہوا ہے کیونکہ صحیح یہی ہے کہ عبیداللہ بن عمرو، عبداللہ بن دینار سے اور وہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی۔ مؤمل نے یہ حدیث شعبہ سے نقل کرنے کے بعد ان کا یہ قول بھی نقل کیا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ اس حدیث کی وجہ سے عبداللہ بن دینار مجھے اجازت دیں اور میں کھڑا ہو کر ان کی پیشانی چوم لوں۔ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ حدیث کے غریب ہونے کی دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس میں ایسا اضافہ ہو جو ثقات سے نہ منقول ہو۔ یہ اس صورت میں صحیح ہو سکتا ہے کہ (حدیث) ایسے شخص سے منقول ہو جس کے حافظے پر اعتماد کیا جاسکتا ہو جیسے مالک بن انس سے نافع سے اور وہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان کا صدقہ فطر ہر مرد عورت آزاد غلام مسلمان پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو مقرر کیا۔ مالک بن انس نے اس حدیث میں من المسلمین کا لفظ زیادہ نقل کیا۔ ایوب سختیانی، عبداللہ بن عمرو اور کئی آئمہ حدیث کو نافع سے اور ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے نقل کرتے ہوئے یہ الفاظ نقل نہیں کرتے جبکہ جبکہ بعض مالک کی طرح بھی روایت کرتے ہیں لیکن ان لوگوں کے حافظے پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ بعض آئمہ کرام امام مالک کی اس حدیث کو تسلیم کرتے ہوئے اسی پر عمل پیرا ہیں۔ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ اگر کسی کے پاس غیر مسلم غلام ہوں تو ان کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا واجب نہیں۔ ان دونوں (امام شافعی اور امام حنبل) نے حدیث مالک بن انس سے دلیل پکڑی۔ بہر حال اگر ایسا راوی جس کے حافظہ پر اعتماد کیا جاسکے، کچھ الفاظ کا اضافہ کرے تو اس سے یہ اضافہ قبول کیا جائے گا۔ بہت سی احادیث متعدد سندوں سے مروی ہوتی ہیں لیکن وہ ایک سند سے غریب سمجھی جاتی ہیں۔