حدیث کی علتوں اور راویوں کی جرح اور تعدیل کے بارے میں
راوی: ابوبکر , علی بن عبداللہ , یحیی بن سعید , محمد بن عجلان
أَخْبَرَنَا أَبُو بَکْرٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ أَحَادِيثُ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ بَعْضُهَا سَعِيدٌ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَبَعْضُهَا سَعِيدٌ عَنْ رَجُلٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ فَاخْتَلَطَتْ عَلَيَّ فَصَيَّرْتُهَا عَنْ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ فَإِنَّمَا تَکَلَّمَ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عِنْدَنَا فِي ابْنِ عَجْلَانَ لِهَذَا وَقَدْ رَوَی يَحْيَی عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ الْکَثِيرَقَالَ أَبُو عِيسَی وَهَکَذَا مَنْ تَکَلَّمَ فِي ابْنِ أَبِي لَيْلَی إِنَّمَا تَکَلَّمَ فِيهِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ قَالَ عَلِيٌّ قَالَ يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ رَوَی شُعْبَةُ عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ أَخِيهِ عِيسَی عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ أَبِي أَيُّوبَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْعُطَاسِ قَالَ يَحْيَی ثُمَّ لَقِيتُ ابْنَ أَبِي لَيْلَی فَحَدَّثَنَا عَنْ أَخِيهِ عِيسَی عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَی عَنْ عَلِيٍّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو عِيسَی وَيُرْوَی عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَی نَحْوُ هَذَا غَيْرَ شَيْئٍ کَانَ يَرْوِي الشَّيْئَ مَرَّةً هَکَذَا وَمَرَّةً هَکَذَا يُغَيِّرُ الْإِسْنَادَ وَإِنَّمَا جَائَ هَذَا مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ وَأَکْثَرُ مَنْ مَضَی مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ کَانُوا لَا يَکْتُبُونَ وَمَنْ کَتَبَ مِنْهُمْ إِنَّمَا کَانَ يَکْتُبُ لَهُمْ بَعْدَ السَّمَاعِ و سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ يَقُولُ سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ يَقُولُ ابْنُ أَبِي لَيْلَی لَا يُحْتَجُّ بِهِ وَکَذَلِکَ مَنْ تَکَلَّمَ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي مُجَالِدِ بْنِ سَعِيدٍ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ لَهِيعَةَ وَغَيْرِهِمْ إِنَّمَا تَکَلَّمُوا فِيهِمْ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِمْ وَکَثْرَةِ خَطَئِهِمْ وَقَدْ رَوَی عَنْهُمْ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الْأَئِمَّةِ فَإِذَا تَفَرَّدَ أَحَدٌ مِنْ هَؤُلَائِ بِحَدِيثٍ وَلَمْ يُتَابَعْ عَلَيْهِ لَمْ يُحْتَجَّ بِهِ کَمَا قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ ابْنُ أَبِي لَيْلَی لَا يُحْتَجُّ بِهِ إِنَّمَا عَنَی إِذَا تَفَرَّدَ بِالشَّيْئِ وَأَشَدُّ مَا يَکُونُ هَذَا إِذَا لَمْ يَحْفَظْ الْإِسْنَادَ فَزَادَ فِي الْإِسْنَادِ أَوْ نَقَصَ أَوْ غَيَّرَ الْإِسْنَادَ أَوْ جَائَ بِمَا يَتَغَيَّرُ فِيهِ الْمَعْنَی فَأَمَّا مَنْ أَقَامَ الْإِسْنَادَ وَحَفِظَهُ وَغَيَّرَ اللَّفْظَ فَإِنَّ هَذَا وَاسِعٌ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ إِذَا لَمْ يَتَغَيَّرْ الْمَعْنَی
ابوبکر، علی بن عبد اللہ، یحیی بن سعید، محمد بن عجلان ہم سے روایت کی ابوبکر نے بواسطہ علی بن عبداللہ اور یحیی بن سعید وہ کہتے ہیں کہ محمد بن عجلان کہتے ہیں کہ سعید مقبری بعض روایات بواسطہ سعید حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بعض ایک اور شخص کے واسطے سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مروی ہیں۔ محمد بن عجلان کہتے ہیں کہ مجھ سے دونوں قسم کی حدیثیں غلط ملط ہوگئیں تو میں نے دونوں کو سعید سے ایک ہی سند میں نقل کر دیا۔ یحیی بن سعید کے محمد بن عجلان پر اعتراض کی میرے نزدیک یہی وجہ ہے۔ اس کے باوجود وہ ان سے روایت کرتے ہیں۔ اسی طرح جن لوگوں نے ابن ابی لیلی کے بارے میں کلام کیا تو وہ بھی حفظ کے اعتبار سے ہیں۔ علی بن مدینی، یحیی بن سعید سے وہ ابن ابی لیلی سے وہ ایوب سے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چھینک کے بارے میں حدیث نقل کرتے ہیں۔ یحیی کہتے ہیں کہ پھر میں ابن ابی لیلی سے ملا تو انہوں نے بواسطہ عیسی، عبدالرحمن بن ابی لیلی اور حضرت علی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت نقل کی۔ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ ابن ابی لیلی سے اس کے علاوہ اس قسم کی روایات مروی ہیں وہ سند میں ردوبدل کرتے ہوئے کبھی کچھ بیان کرتے ہیں اور کبھی کچھ۔ اور یہ حفظ کی وجہ سے ہوا۔ کیونکہ اکثر علماءلکھتے نہ تھے اور جو لکھتے تھے وہ بھی سننے کے بعد لکھتے۔ امام ترمذی کہتے ہیں کہ میں نے احمد بن حسن کو احمد بن حنبل کے حوالے سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ ابن ابی لیلی ان لوگوں میں سے ہیں جن کی روایات قابل استدلال نہیں۔ اسی طرح کئی مجالدین سعید اور عبداللہ بن لہیعہ پر سوءحفظ اور کثرت خطاء کی وجہ سے اعترض کرتے ہیں لیکن کئی آئمہ ان سے احادیث نقل کرتے ہیں۔ حاصل یہ کہ ان میں سے جب کوئی حدیث میں منفرد ہو اور اس کا کوئی متابع نہ ہو تو اس کی روایت سے استدلال نہیں کیا جاسکتا۔ جس طرح امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ ابن ابی لیلی کی روایت سے استدلال نہیں کیا جاسکتا تو اس سے بھی یہی مراد ہے کہ جب وہ اپنی روایت میں منفرد ہو اور سب سے سخت بات تو یہ ہے کہ جب سند یاد نہ ہو تو اس میں کمی زیادتی کی جائے یا بدل دی جائے یا متن میں ایسے الفاظ لائے جائیں جن سے معنی بدل جائیں تو اس میں تشدیر کی جائے گی۔ لیکن جو حضرات سندیں اچھی طرح یاد رکھتے ہو اور کسی ایسے لفظ میں تغیر کرتے ہوں جس سے معنی میں فرق نہ آئے تو اہل علم کے نزدیک ایسے حضرات کی روایت میں کوئی مضائقہ نہیں۔