جامع ترمذی ۔ جلد دوم ۔ فتنوں کا بیان ۔ حدیث 130

ابن صیاد کے بارے میں

راوی: سفیان بن وکیع , عبدالاعلی , جریری , ابونضرة , ابوسعید خدری

حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَکِيعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَی عَنْ الْجُرَيْرِيِّ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ صَحِبَنِي ابْنُ صَائِدٍ إِمَّا حُجَّاجًا وَإِمَّا مُعْتَمِرِينَ فَانْطَلَقَ النَّاسُ وَتُرِکْتُ أَنَا وَهُوَ فَلَمَّا خَلَصْتُ بِهِ اقْشَعْرَرْتُ مِنْهُ وَاسْتَوْحَشْتُ مِنْهُ مِمَّا يَقُولُ النَّاسُ فِيهِ فَلَمَّا نَزَلْتُ قُلْتُ لَهُ ضَعْ مَتَاعَکَ حَيْثُ تِلْکَ الشَّجَرَةِ قَالَ فَأَبْصَرَ غَنَمًا فَأَخَذَ الْقَدَحَ فَانْطَلَقَ فَاسْتَحْلَبَ ثُمَّ أَتَانِي بِلَبَنٍ فَقَالَ لِي يَا أَبَا سَعِيدٍ اشْرَبْ فَکَرِهْتُ أَنْ أَشْرَبَ مِنْ يَدِهِ شَيْئًا لِمَا يَقُولُ النَّاسُ فِيهِ فَقُلْتُ لَهُ هَذَا الْيَوْمُ يَوْمٌ صَائِفٌ وَإِنِّي أَکْرَهُ فِيهِ اللَّبَنَ قَالَ لِي يَا أَبَا سَعِيدٍ هَمَمْتُ أَنْ آخُذَ حَبْلًا فَأُوثِقَهُ إِلَی شَجَرَةٍ ثُمَّ أَخْتَنِقَ لِمَا يَقُولُ النَّاسُ لِي وَفِيَّ أَرَأَيْتَ مَنْ خَفِيَ عَلَيْهِ حَدِيثِي فَلَنْ يَخْفَی عَلَيْکُمْ أَلَسْتُمْ أَعْلَمَ النَّاسِ بِحَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ أَلَمْ يَقُلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ کَافِرٌ وَأَنَا مُسْلِمٌ أَلَمْ يَقُلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ عَقِيمٌ لَا يُولَدُ لَهُ وَقَدْ خَلَّفْتُ وَلَدِي بِالْمَدِينَةِ أَلَمْ يَقُلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَدْخُلُ أَوْ لَا تَحِلُّ لَهُ مَکَّةُ وَالْمَدِينَةُ أَلَسْتُ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ وَهُوَ ذَا أَنْطَلِقُ مَعَکَ إِلَی مَکَّةَ فَوَاللَّهِ مَا زَالَ يَجِيئُ بِهَذَا حَتَّی قُلْتُ فَلَعَلَّهُ مَکْذُوبٌ عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ يَا أَبَا سَعِيدٍ وَاللَّهِ لَأُخْبِرَنَّکَ خَبَرًا حَقًّا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْرِفُهُ وَأَعْرِفُ وَالِدَهُ وَأَعْرِفُ أَيْنَ هُوَ السَّاعَةَ مِنْ الْأَرْضِ فَقُلْتُ تَبًّا لَکَ سَائِرَ الْيَوْمِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ

سفیان بن وکیع، عبدالاعلی، جریری، ابونضرة، حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ابن صیاد نے میرے ساتھ حج یا عمرے کا سفر کیا تو لوگ آگے بڑھ گئے اور وہ پیچھے رہ گئے جب میں اس کے ساتھ تنہا رہ گیا تو میرا دل خوف کی وجہ سے دھڑکنے لگا اور مجھے اس سے وحشت ہونے لگی کیونکہ لوگ اس کی متعلق کہا کرتے تھے کہ دجال وہی ہے جب میں ایک جگہ ٹھہرا تو اس سے کہا کہ اپنا سامان واپس درخت کے نیچے رکھا اتنے میں اس نے کچھ بکریاں دیکھیں تو پیالہ لے کر گیا اور ان کا دودھ نکال کر لایا اور مجھ سے کہا کہ اسے پیو لیکن مجھے اس کے ہاتھ سے کوئی چیز پینے میں کراہت محسوس ہوئی کیونکہ لوگ اسے دجال کہتے تھے پس میں اس سے یہ کہہ دیا کہ آج گرمی ہے اور میں گرمی میں دودھ پینا پسند نہیں کرتا اس نے کہا ابوسعید میں نے لوگوں کی ان باتوں سے جو وہ میرے متعلق کہتے ہیں تنگ آ کر فیصلہ کیا کہ رسی لے کر درخت سے باندھوں اور گلا گھونٹ کر مرجاؤں دیکھو اگر میری حیثیت کسی اور پر پوشیدہ رہے تو رہے تم لوگوں پر تو پوشیدہ نہیں رہنی چاہئے اس لئے کہ تم لوگ احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام لوگوں سے زیادہ جانتے ہو اے انصار کی جماعت کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ کافر ہوگا جبکہ میں مسلمان ہوں کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ ناقابل تولد ہوگا اور اس کی اولاد نہ ہوگی جبکہ میں نے اپنا بچہ مدینہ میں چھوڑا ہے پھر کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ مکہ میں داخل نہیں ہو سکتا جبکہ میں اہل مدینہ میں سے ہوں اور اس وقت تمہارے ساتھ مکہ جا رہا ہوں ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اس نے اس قسم کی دلیلیں پیش کیں کہ میں سوچنے لگا کہ شاید لوگ اس کے متعلق جھوٹی باتیں کہتے ہوں گے پھر اس نے کہا ابوسعید میں تمہیں ایک سچی خبر بتاتا ہوں کہ اللہ کی قسم میں دجال اور اس کے باپ کو جانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ اس وقت کہاں ہے جب اس نے یہ بات کہی تو میں نے کہا تجھ پر سارے دن کی ہلاکت ہو یعنی مجھے پھر اس سے بدگمانی ہوگئی کیونکہ آخر میں اس نے ایسی بات کہہ دی تھی یہ حدیث حسن ہے

Sayyidina Abu Sa’eed (RA) narrated lbn Sayyad performed Hajj or Umrah with me. (During the journey), people overtook us and the two of us were left behind (to ourselves). When I was alone with him, I sensed a fear. I was terrified because people used to say things about him. When I stopped (at a place), I said to him, ‘Put down your provision by this tree,” He spied some sheep,.so took a bowl to them and brought their milk, saying to me, “Drink O Abu Sa’eed.’ I disliked to drink anything from his hands because of what people said about him. So, I said to him, “This is a hot day and I do not like milk in the heat.” He said, “O Abu Sa’eed, I have resolved to take a rope and tie it to the tree and strangulate my neck because of what people say about me. Do you see that if my condition is concealed from others, it is not concealed from you. You know better than other people the hadith of Allah’s Messenger ‘O company of the Ansar, has not Allah’s Messenger (SAW) said, He (dajjal) is a disbeliever, but I Messenger (SAW) say that he is childless, but I have left behind my son in Madinah. Did he not say that the (dajjal) cannot enter Makkah, but am I not one of the people of Madinah? And I am going to Makkah with you.” He did not cease to speak in this fashion till I thought that people might be lying about him. He then said, ‘0 Abu Sa’eed ! Indeed, I will inform you Of a news a true news. By Allah, I know him° and I know his father and where he is on earth now.” So, I said, “May evil befall you, all day!”

[Muslim 2927]

یہ حدیث شیئر کریں