جامع ترمذی ۔ جلد اول ۔ حج کا بیان ۔ حدیث 874

تمام عرفات ٹھہر نے کی جگہ ہے

راوی: محمد بن بشار , ابواحمد , سفیان , عبدالرحمن بن حارث بن عیاش , ابی ربیعہ , زید بن علی , عبداللہ بن ابی رافع , علی

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَيَّاشِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ عَنْ زَيْدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ وَقَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَةَ فَقَالَ هَذِهِ عَرَفَةُ وَهَذَا هُوَ الْمَوْقِفُ وَعَرَفَةُ کُلُّهَا مَوْقِفٌ ثُمَّ أَفَاضَ حِينَ غَرَبَتْ الشَّمْسُ وَأَرْدَفَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ وَجَعَلَ يُشِيرُ بِيَدِهِ عَلَی هِينَتِهِ وَالنَّاسُ يَضْرِبُونَ يَمِينًا وَشِمَالًا يَلْتَفِتُ إِلَيْهِمْ وَيَقُولُ يَا أَيُّهَا النَّاسُ عَلَيْکُمْ السَّکِينَةَ ثُمَّ أَتَی جَمْعًا فَصَلَّی بِهِمْ الصَّلَاتَيْنِ جَمِيعًا فَلَمَّا أَصْبَحَ أَتَی قُزَحَ فَوَقَفَ عَلَيْهِ وَقَالَ هَذَا قُزَحُ وَهُوَ الْمَوْقِفُ وَجَمْعٌ کُلُّهَا مَوْقِفٌ ثُمَّ أَفَاضَ حَتَّی انْتَهَی إِلَی وَادِي مُحَسِّرٍ فَقَرَعَ نَاقَتَهُ فَخَبَّتْ حَتَّی جَاوَزَ الْوَادِيَ فَوَقَفَ وَأَرْدَفَ الْفَضْلَ ثُمَّ أَتَی الْجَمْرَةَ فَرَمَاهَا ثُمَّ أَتَی الْمَنْحَرَ فَقَالَ هَذَا الْمَنْحَرُ وَمِنًی کُلُّهَا مَنْحَرٌ وَاسْتَفْتَتْهُ جَارِيَةٌ شَابَّةٌ مِنْ خَثْعَمٍ فَقَالَتْ إِنَّ أَبِي شَيْخٌ کَبِيرٌ قَدْ أَدْرَکَتْهُ فَرِيضَةُ اللَّهِ فِي الْحَجِّ أَفَيُجْزِئُ أَنْ أَحُجَّ عَنْهُ قَالَ حُجِّي عَنْ أَبِيکِ قَالَ وَلَوَی عُنُقَ الْفَضْلِ فَقَالَ الْعَبَّاسُ يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَ لَوَيْتَ عُنُقَ ابْنِ عَمِّکَ قَالَ رَأَيْتُ شَابًّا وَشَابَّةً فَلَمْ آمَنْ الشَّيْطَانَ عَلَيْهِمَا ثُمَّ أَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَفَضْتُ قَبْلَ أَنْ أَحْلِقَ قَالَ احْلِقْ أَوْ قَصِّرْ وَلَا حَرَجَ قَالَ وَجَائَ آخَرُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي ذَبَحْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ قَالَ ارْمِ وَلَا حَرَجَ قَالَ ثُمَّ أَتَی الْبَيْتَ فَطَافَ بِهِ ثُمَّ أَتَی زَمْزَمَ فَقَالَ يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَوْلَا أَنْ يَغْلِبَکُمْ النَّاسُ عَنْهُ لَنَزَعْتُ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ قَالَ أَبُو عِيسَی حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عَلِيٍّ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَيَّاشٍ وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الثَّوْرِيِّ مِثْلَ هَذَا وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ رَأَوْا أَنْ يُجْمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِعَرَفَةَ فِي وَقْتِ الظُّهْرِ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِذَا صَلَّی الرَّجُلُ فِي رَحْلِهِ وَلَمْ يَشْهَدْ الصَّلَاةَ مَعَ الْإِمَامِ إِنْ شَائَ جَمَعَ هُوَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ مِثْلَ مَا صَنَعَ الْإِمَامُ قَالَ وَزَيْدُ بْنُ عَلِيٍّ هُوَ ابْنُ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْهِ السَّلَام

محمد بن بشار، ابواحمد، سفیان، عبدالرحمن بن حارث بن عیاش، ابی ربیعہ، زید بن علی، عبداللہ بن ابی رافع، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرفات میں ٹھہرے اور فرمایا یہ عرفات ٹھہرنے کی جگہ ہے پھر غروب آفتاب کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس ہوئے اور اسامہ بن زید کو ساتھ بٹھالیا اور اپنی عادت کے مطابق سکون واطمنان کے ساتھ ہاتھ سے اشارے کرنے لگے لوگ دائیں بائیں اپنے اونٹوں کو چلانے کے لئے مار رہے تھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا اے لوگو اطمینان سے چلو پھر آپ مزدلفہ پہنچے اور مغرب وعشاء دو نمازیں اکٹھی پڑھیں صبح کے وقت قزح کے مقام پر آئے اور وہاں ٹھہرے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ قزح ہے اور یہ ٹھہرنے کی جگہ ہے بلکہ مزدلفہ سارے کا سارا ٹھہرنے کی جگہ ہے پھر وہاں سے چل کروادی محسر میں پہنچے تو اونٹنی کو ایک کوڑا مارا جس سے وہ دوڑنے لگی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وادی سے نکل گئے پھر رکے اور فضل بن عباس کو اپنے ساتھ بٹھا کر جمرہ کے پاس آئے اور کنکریاں ماریں اس کے بعد قربانی کی جگہ پہنچے اور فرمایا یہ قربانی کی جگہ ہے اور منی پورے کا پورا قربان گاہ ہے۔ یہاں قبیلہ خثعم کی ایک لڑکی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پوچھا اس نے عرض کیا میرے والد بہت بوڑھے ہیں اور ان پر حج فرض ہے کیا میں ان کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟ فرمایا ہاں اپنے والد کی طرف سے حج کرلو پھر راوی کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فضل بن عباس کی گردن دوسری طرف موڑ دی اس پر حضرت عباس نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا زاد کی گردن کیوں پھیر دی۔ نے فرمایا میں نے نوجوان مرد اور نوجوان عورت کو دیکھا تو میں ان پر شیطان سے بے خوف نہیں ہوا، پھر ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے سر منڈانے سے پہلے کعبة اللہ کا طواف کر لیا ہے فرمایا کوئی حرج نہیں سر منڈ والے یا فرمایا بال کٹوالے، روای کہتے ہیں کہ پھر ایک شخص آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے قرطانی کرلی فرمایا کوئی حرج نہیں اب کنکریاں مارلو پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیت اللہ کے پاس آئے اس کا طواف کیا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زمزم پر تشریف لائے اور فرمایا اے عبد المطلب کی اولاد اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ لوگ تم پر غالب آجائیں گے تو میں بھی زمزم کا پانی کھنیچتا (نکالتا) یعنی میرے اس طرح نکالنے پر لوگ میری سنت کی اتباع میں تمہیں پانی نکالنے کی مہلت نہ دیں گے اس باب میں حضرت جابر سے بھی روایت ہے امام ابوعیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حدیث علی حسن صحیح ہے ہم اسے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث سے صرف عبدالرحمن بن حارث بن عیاش کی روایت سے جانتے ہیں کئی راوی ثوری سے اسی کے مثل روایت ہیں اسی پر اہل علم کا عمل ہے کہ عرفات میں ظہر اور عصر کی نماز ظہر کے وقت میں جمع کی جائیں، بعض اہل علم فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنے خیمہ میں اکیلا نماز پڑھے اور امام کی جماعت میں شریک نہ ہو تو وہ بھی امام ہی کی طرح دونوں نمازیں جمع کرکے پڑھ سکتا ہے زید بن علی وہ زید بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب ہیں۔

Sayyidina Ali ibn Abu Talib (RA) narrated : Allah’s Messenger (SAW) stood at Arafat. He said, ‘This is Arafat and it is the Mawqif (standing place), and all of it is the Mawqif.”

Then, he returned when the sun set and took Usamah ibn Zayd (RA)as his co-rider. And as was his wont, he began to gesture with his hand. And the people were on the right and left beating the track.° He turned towards them and said, “0 People! You must be peaceful.’ Then they all came to Muzdalifah and he prayed with them the two prayers (of maghrib and isha) together. When it was dawn, he came to Quzah and stood there and said, “This is quzah and it is the mawqif. Rather, the whole of Muzdalifah is the mawqif.” Then, he moved forward till he came to the valley Muhassir where he struck his she-camel a whip so that it began to run till they were beyond the valley. He stopped and took Fadi ibn Abbas as his co-rider and came to the jamrah and hit it with pebbles (which is called rami). Then he came to the slaughtering place. He said, “This is the mazbah (slaughtering place) and all of Mina is place of slaughtering.

A young girl of the tribe Kath’am said, “My father is old. The obligation of Hajj is on him. May I perform Hajj on his behalf?” He said, “Perform Hajj on behalf of your father.” He then turned away Fadi’s neck from this girl. So, Abbas asked. “0 Messenger of Allah! Why did you turn the neck of the son of your uncle?” He said, “I saw a young man and a young woman and was apprehensive of the devil’s Mischief.” A man came shortly and said, “0 Messenger of Allah! I have performed the tawaf of if’adah before shaving my head.” He said, “Shave it now. There is no sin in that.”

Another man came and submitted, “0 Messenger of Allah! I have made the sacrifice before pelting the stones.” He said, “Make rami (pelt stones) now. There is no sin.”

Then he came to the House (of Allah), made the tawaf and came to the well of zamzam. He said, “0 children of Abdul Muttalib! Were it not that people would overpower you (and draw water) I would have drawn for myself.”

[Ahmed562, Abu Dawud 1935, Ibn e Majah 3010]

یہ حدیث شیئر کریں