وارث کے لئے وصیت نہیں
راوی: علی بن حجر , ہناد , اسماعیل بن عیاش , شرحبیل بن مسلم , خولانی , ابوامامہ باہلی
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ وَهَنَّادٌ قَالَا حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ حَدَّثَنَا شُرَحْبِيلُ بْنُ مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيُّ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي خُطْبَتِهِ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعْطَی لِکُلِّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ فَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ وَحِسَابُهُمْ عَلَی اللَّهِ وَمَنْ ادَّعَی إِلَی غَيْرِ أَبِيهِ أَوْ انْتَمَی إِلَی غَيْرِ مَوَالِيهِ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ التَّابِعَةُ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا تُنْفِقُ امْرَأَةٌ مِنْ بَيْتِ زَوْجِهَا إِلَّا بِإِذْنِ زَوْجِهَا قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا الطَّعَامَ قَالَ ذَلِکَ أَفْضَلُ أَمْوَالِنَا ثُمَّ قَالَ الْعَارِيَةُ مُؤَدَّاةٌ وَالْمِنْحَةُ مَرْدُودَةٌ وَالدَّيْنُ مَقْضِيٌّ وَالزَّعِيمُ غَارِمٌ قَالَ أَبُو عِيسَی وَفِي الْبَاب عَنْ عَمْرِو بْنِ خَارِجَةَ وَأَنَسٍ وَهُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ وَرِوَايَةُ إِسْمَعِيلَ بْنِ عَيَّاشٍ عَنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ وَأَهْلِ الْحِجَازِ لَيْسَ بِذَلِکَ فِيمَا تَفَرَّدَ بِهِ لِأَنَّهُ رَوَی عَنْهُمْ مَنَاکِيرَ وَرِوَايَتُهُ عَنْ أَهْلِ الشَّامِ أَصَحُّ هَکَذَا قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ قَال سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ يَقُولُ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ إِسْمَعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ أَصْلَحُ حَدِيثًا مِنْ بَقِيَّةَ وَلِبَقِيَّةَ أَحَادِيثُ مَنَاکِيرُ عَنْ الثِّقَاتِ و سَمِعْت عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يَقُولُ سَمِعْتُ زَکَرِيَّا بْنَ عَدِيٍّ يَقُولُ قَالَ أَبُو إِسْحَقَ الْفَزَارِيُّ خُذُوا عَنْ بَقِيَّةَ مَا حَدَّثَ عَنْ الثِّقَاتِ وَلَا تَأْخُذُوا عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ عَيَّاشٍ مَا حَدَّثَ عَنْ الثِّقَاتِ وَلَا عَنْ غَيْرِ الثِّقَاتِ
علی بن حجر، ہناد، اسماعیل بن عیاش، شرحبیل بن مسلم، خولانی، حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حجة الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خطبہ سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہر وارث کے لئے حصہ مقرر کر دیا ہے۔ لہذا اب کسی وارث کے لئے وصیت کرنا جائز نہیں۔ بچہ صاحب فراش کا ہے اور زانی کے لئے پتھر ہے۔ ان کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہے۔ جو آدمی اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کا دعوی کرے یا اپنے آقا کے علاوہ کسی اور کی طرف نسبت کرے اس پر قیامت تک اللہ تعالیٰ کی لعنت مسلسل برستی رہے گی۔ عورت خاوند کی اجازت کے بغیر اس کے گھر سے خرچ نہ کرے۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کھانا بھی نہیں؟ فرمایا کھانا ہمارے سب مالوں سے افضل ہے۔ پھر فرمایا مانگی ہوئی چیز اور دودھ کے لئے ادھار لئے ہوئے جانور واپس کئے جائیں اور قرض ادا کیا جائے اور ضامن اس چیز کا ذمہ دار ہے جس کی اس نے ضمانت دی ہے۔ اس باب میں حضرت عمرو بن خارجہ اور انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی احادیث منقول ہیں۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور ابوامامہ سے اور سندوں سے بھی منقول ہے۔ اسماعیل بن عیاش کی اہل عراق اور اہل حجاز سے وہ روایت قوی نہیں جن کو نقل کرنے میں وہ منفرد ہیں۔ کیونکہ انہوں نے منکر روایتیں نقل کی ہیں۔ جبکہ ان کی اہل شام سے نقل کردہ احادیث زیادہ صحیح ہیں۔ محمد بن اسماعیل بخاری بھی یہی کہتے ہیں۔ احمد بن حسن، احمد بن حنبل سے نقل کرتے ہیں کہ اسماعیل بن عیاش بقیہ سے زیادہ صحیح ہیں کیونکہ ان کی بہت سی احادیث جو وہ ثقہ راویوں سے نقل کرتے ہیں منکر ہیں۔ عبداللہ بن عبدالرحمن زکریا بن عدی سے اور وہ ابواسحاق فزاری سے نقل کرتے ہیں کہ بقیہ سے وہ حدیثیں لے لو جو وہ ثقات سے روایت کرتے ہیں۔ لیکن اسماعیل بن عیاش ثقات سے روایت کریں یا غیر ثقات سے ان کوئی روایت نہ لو۔
Sayyidina Abu Umamah Bahili narrated I heard Allah’s Messenger (SAW) say during the sermon of the Farewell pilgrimage, Allah, the Blessed and the Exalted, has assigned every owner of right, his right. There is no will for an heir. The child belongs to the bed, and for the adulterer are stones and his reckoning is with Allah, the Exalted. As for him who traces himself to anyone other than his father, or connects himself to another than his master then on him is the curse of Allah stamped up to the Day of resurrection. No woman may spend from the home of her husband, save with his permission. Someone asked “O Messenger of Allah, not even food?” He said, “That is the most excellent of our properties.” He also said, “That which is borrowed is to be repaid, and the minhah is to be returned, and the debt must be discharged, and the guarantor is responsible.”
[Abu Dawud 2870, Ibn Majah 2713]